قومی

کلیرشریف میں منظور شدہ گورنمنٹ یونانی میڈیکل کالج کی تعمیر التوا میں ہونا اُتراکھنڈ میں طب یونانی کے فروغ میں بڑی رُکاوٹ: پروفیسر سیّد عارف زیدی

دہرادون۔ یکم جولائی 2024 (پریس ریلیز)
آل انڈیا یونانی طبّی کانگریس کی قومی جنرل باڈی میٹنگ زیر صدارت پروفیسر سیّد محمد عارف زیدی (سابق ڈین یونانی فیکلٹی جامعہ ہمدرد) کی صدارت میں تسمیہ قرآن اکیڈمی دہرا دون میں منعقد ہوئی۔ انہوں نے اس امر پر حیرانی کا اظہار کیا کہ گزشتہ سات سال قبل کلیر شریف میں منظور شدہ گورنمنٹ یونانی میڈیکل کالج کی تعمیر کا کام حکومت کی عدم دلچسپی کی وجہ سے التوا میں پڑا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ صوبہ اتراکھنڈ میں طب یونانی کے فروغ میں بڑی رُکاوٹ ہے۔ پروفیسر عارف زیدی نے مزید کہا کہ آج ہمارے لوگوں میں سرجری کا رواج کم ہوتا جارہا ہے جبکہ طب یونانی میں سرجری کو وہی اہمیت حاصل ہے جو ایلوپیتھی کو ہے۔ انہوں نے یہ بھی مشورہ دیا کہ علاج بالتدبیر میں حجامہ کو بڑی اہمیت حاصل ہے مگر اسے ہمارے کچھ ناعاقبت اندیش لوگ مذہبی رنگ کا چولا پہنانے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ یہ مکمل طور پر سائنٹفک ہے۔ انہوں نے اس امر پر زور دیتے ہوئے کہا کہ طب یونانی کو تقویت دینے اور اس کی ترویج و ترقی میں ادویہ کا معیاری ہونا انتہائی ضروری ہے۔
اس موقع پر تنظیم ہذا کے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر سیّد فاروق صاحب نے اظہار خیال کرتے ہوئے اطبا حضرات کو بہت سے مفید مشوروں سے نوازا۔ انہوں نے کہا کہ آل انڈیا یونانی طبّی کانگریس طب یونانی کے فروغ کی سب سے بڑی تحریک ہے۔ یہ سلسلہ لازمی طور پر چلنا چاہیے اور اپنی بات کو حکومت وقت تک سلیقے سے پہنچاتے رہنا چاہیے۔ انہوں نے سابق وزیر اعظم آنجہانی اٹل بہاری باجپائی کے ذریعہ وِگیان بھون، نئی دہلی میں دی گئی ایک تقریر کے حوالہ سے کہا کہ اُن کے پیٹ کی تکلیف ایک حکیم جی کے علاج سے دور ہوئی تھی جس کی انہوں نے تعریف کی تھی۔ ظاہر ہے اپنے دور کے وزیر اعظم کا طب یونانی کے حوالے سے اطبائے یونانی کی حوصلہ افزائی بہت بڑی بات تھی۔ انہوں نے کہا کہ ریسرچ کا کام ترجیحی بنیاد پر آگے بڑھانا ہوگا کیونکہ اس کے ذریعہ ہم دنیا میں اپنی طاقت منوانے میں کامیاب ہوں گے۔
پروفیسر محمد یونس نے کہا کہ یونانی طریقہ علاج عین انسانی فطرت کے مطابق ہے اور مکمل شفا کا ذریعہ بھی۔ ہمیں احساس کمتری اور خالص دنیاداری سے باہر نکل کر عوام کی خدمت کی نیت سے آگے بڑھنا ہے۔ دور حاضر میں کمرشیل سوچ نے اخلاقیات کو تباہ کردیا ہے جبکہ طب یونانی میں اخلاقی ذمہ داریوں کو ترجیح دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ علاج بالتدبیر کا رواج بڑھ رہا ہے مگرا س کے حدود طے کرکے سائنٹفک دائرہ میں فروغ دینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ علاج بالتدبیر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انسان زیادہ دوائیں کھانے سے بچ جاتا ہے اور عمدہ صحت کا حامل بن جاتا ہے۔ اس لیے ہر تعلیمی ادارہ اپنے اپنے کالج کے ہاسپٹل میں لازمی طور پر علاج بالتدبیر کو اہمیت دے۔ اس موقع پر ڈاکٹر سیّد احمد خاں نے صوبائی رپورٹ پیش کی۔ مغربی بنگال، اتراکھنڈ، ہماچل پردیش، پنجاب، گجرات، ہریانہ، آسام اور اڑیسہ میں طب یونانی کی ناگفتہ بہ حالت پر افسوس کا اظہار کیا۔ صوبائی صدور اور جنرل سکریٹریز نے بھی اظہار خیال کیا خاص طور سے ڈاکٹر ایس ایم یعقوب، ڈاکٹر مطیع اللہ مجید، ڈاکٹر طیب انجم، ڈاکٹر محمد ارشد غیاث، ڈاکٹر عبدالمجید قاسمی علیگ، ڈاکٹر شکیل احمد میرٹھی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ میٹنگ کے اہم شرکاء میں ڈاکٹر غیاث الدین صدیقی، ڈاکٹر اطہر محمود، ڈاکٹر مرزا آصف بیگ، ڈاکٹر احسان احمد صدیقی، ڈاکٹر احمد رانا، حکیم کاشف صدیقی، ڈاکٹر محمد وسیم، ڈاکٹر احمد اللہ، ڈاکٹر صفیان، ڈاکٹر سلیم سلمانی، ڈاکٹر وہاج الدین، ڈاکٹر راج کمار، حکیم رشادالاسلام، حکیم محمد اللہ گنگوہی، حکیم نعیم رضا، حکیم عبدالرحمن، اسرار احمد اُجینی، مفتی وصی اللہ قاسمی، حکیم آفتاب عالم، حکیم محمد آصف، محمد حفظ الرحمن اور محمد عمران قنوجی وغیرہ شامل ہیں۔ میٹنگ کا آغاز قاری محمد یونس قاسمی کی تلاوت قرآن سے ہوا۔ نظامت کے فرائض تحسین علی اساروی نے انجام دیے اور تمام شرکاء کا شکریہ ڈاکٹر مطیع اللہ مجید (صدر، آل انڈیا یونانی طبّی کانگریس اُتراکھنڈ) نے ادا کیا۔
جاری کردہ
(ڈاکٹر مطیع اللہ مجید)
Mobile: 9761908102

Related posts

کارکنوں نے جیتن رام مانجھی کو مرکزی وزیر بنائے جانے پر مبارکباد دی

www.journeynews.in

کانگریس، بائیں بازو نے بدعنوانی اور اقربا پروری کو فروغ دیا: نڈا

www.journeynews.in

لبنان میں انسانیت کش حملے کی شدید مذمت

www.journeynews.in