شمس آغاز
ایڈیٹر ،دی کوریج
Mobile:9716518126
Email.shamsaghazrs@gmail.com
دنیا کی سیاست میں پچھلے چند برسوں میں جو بڑے انقلابی اور غیر متوقع واقعات دیکھنے کو ملے ہیں، ان میں جنوبی ایشیا
کے ممالک خاص طور پر نمایاں ہیں۔ جنوبی ایشیا جسے طویل عرصے سےسیاسی عدم استحکام، کرپشن، بدانتظامی،
اقتصادی بدحالی اور فوجی یا سیاسی مداخلتوں کا مرکز سمجھا جاتا رہا ہے، وہاں ایک بار پھر تختہ پلٹ کی فضا قائم ہو چکی
ہے۔ سری لنکا، بنگلہ دیش اور اب حالیہ دنوں میں نیپال میں رونما ہونے والے عوامی مظاہرے اور حکومتی تبدیلیاں اس بات
کی دلیل ہیں کہ اس خطے کے عوام اب پرانے طرزِ حکمرانی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ایک طرف سری لنکا
ہے جس نے بدترین معاشی بحران کا سامنا کیا، جہاں عوام نے صدارتی محل پر دھاوا بول کر صدر گوٹابایا راج پکشے کو
بھاگنے پر مجبور کیا۔ دوسری طرف بنگلہ دیش ہے جہاں طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والی شیخ حسینہ واجد کے
خلاف زبردست عوامی احتجاج ہوا اور ان کے زوال نے پورے خطے کو ہلا کر رکھ دیا۔ اور اب نیپال میں رپورٹس کے
مطابق عوامی غم و غصہ اتنے شدید مرحلے پر پہنچ چکاہے کہ وزیر اعظم کو استعفیٰ دینا پڑا اور سیاسی مستقبل ایک بار
پھر غیر یقینی صورتحال کا شکار ہو گیا ہے۔
سری لنکا کی مثال اس خطے کے لیے ایک اہم سبق تھی۔ یہ ملک کئی دہائیوں تک خانہ جنگی کا شکار رہا، پھر جب امن قائم
ہوا تو سیاسی خاندانوں کی اجارہ داری نے جمہوریت کو کمزور کر دیا۔ راج پکشے خاندان نے کئی برس تک اقتدار پر قبضہ
کیے رکھا، لیکن جب 2022 میں ملک بدترین معاشی بحران میں ڈوبا، تو عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ بجلی کی
طویل لوڈشیڈنگ ہونے لگی، ادویات اور ضروری اشیاء مارکیٹ سے غائب ہو گئیں۔ سری لنکا کی کرنسی زمین بوس ہوئی
اور مہنگائی آسمان کو چھونے لگی۔ عوام جب سڑکوں پر نکلے تو ان کے غصے کی شدت نے پوری دنیا کو چونکا دیا۔
صدارتی محل پر عوام کے قبضے کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں اور یہ منظر گویا عوامی طاقت کی
ایک زندہ علامت بن گیا۔ آخرکار صدر گوٹابایا راج پکشے کو ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑا اور یہ ثابت ہوا کہ عوامی بغاوت اگر
شدت اختیار کر لے تو طاقتور ترین حکمران بھی زیادہ دیر اقتدار پر قابض نہیں رہ سکتا۔
بنگلہ دیش میں بھی یہی کہانی ایک مختلف انداز میں دہرائی گئی۔ بنگلہ دیش جو آزادی کے بعد سے ہی سیاسی کشمکش کا
شکار رہا ہے، وہاں شیخ حسینہ نے تقریباً پندرہ برسوں تک اقتدار پر اپنی مضبوط گرفت قائم رکھی۔ ان کے دور حکومت میں
اگر چہ معاشی ترقی کے کچھ مثبت پہلو ضرور دیکھنے کو ملے، لیکن ساتھ ہی آمرانہ طرزِ حکمرانی، اپوزیشن کو کچلنے
کی پالیسی، انتخابی دھاندلی کے الزامات اور آزادی اظہارِ رائے پر پابندیوں نے عوامی بے چینی کو بڑھا دیا۔ خاص طور پر
نوجوان طبقے اور طلبہ میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا، بدعنوانی اور خاندانی سیاست نے جمہوری ڈھانچے کو
کمزور کیا۔ آخرکار 2024-2025 کے دوران عوامی احتجاج کی ایک بڑی لہر اٹھی۔ مظاہروں میں شدت آنے کے بعد پولیس
اور فوج کی سخت کارروائیوں نے صورت حال کو مزید پیچیدہ کر دیا۔ سوشل میڈیا پر خبریں اور ویڈیوز پھیلنے لگیں کہ
عوامی مزاحمت اب ناقابلِ قابو ہے۔ اس احتجاج نے اتنی شدت اختیار کی کہ بالآخر شیخ حسینہ کو اقتدار چھوڑنا پڑا اور بنگلہ
دیش ایک بار پھر سیاسی غیر یقینی کے دوراہے پر کھڑا ہو گیا۔
بنگلہ دیش کی اس تازہ ترین سیاسی تبدیلی نے پورے خطے کو ہلا کر رکھ دیا، کیونکہ ایک ایسی حکومت جسے دنیا میں
مستحکم مانا جاتا تھا، اچانک عوامی دباؤ کے سامنے کمزور ہو گئی۔ اس واقعے نے یہ سوال پیدا کر دیا کہ کیا جنوبی ایشیا
میں کوئی بھی حکومت اب طویل عرصے تک عوام کو نظر انداز کر کے اقتدار پر برقرار رہ سکتی ہے؟ عوام کی بیداری،
نوجوانوں کی طاقت اور سوشل میڈیا کی وسعت نے حکمرانوں کے لیے پرانی طرزِ سیاست کو مشکل بنا دیا ہے۔
اسی دوران نیپال میں بھی ایک نئی کہانی لکھی جانے لگی۔ نیپال کی سیاست ہمیشہ سے غیر مستحکم رہی ہے۔ کبھی بادشاہت،
کبھی خانہ جنگی، کبھی ماؤوادی تحریک اور کبھی جمہوری تجربات اس ملک نے ہر طرح کی سیاسی کشمکش کو دیکھا
ہے۔ لیکن حالیہ دنوں میں وہاں جو کچھ ہوا، اس نے ایک بار پھر یہ بتا دیا کہ عوامی دباؤ کے آگے بڑی بڑی کرسیوں کے
پائے لرز جاتے ہیں۔ دھرو راٹھی نے اپنے یوٹیوب چینل پر جو ویڈیو پوسٹ کیا، اس میں اس نے واضح طور پر بتایا کہ نیپال
میں عوامی بیداری کس سطح پر پہنچ گئی ہے۔ اس کے مطابق نوجوان نسل، خاص طور پر Gen-Z، (جین -زی )نے
احتجاج میں اہم کردار ادا کیا۔ کرفیو لگانے کے باوجود عوام سڑکوں پر نکلے اور وزیر اعظم کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر
دیا۔
نیپال کی اس تازہ تبدیلی کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ یہاں کی سیاست ہمیشہ خارجی دباؤ اور داخلی
کمزوریوں کے درمیان پھنسی رہی ہے۔ معیشت کمزور ہے، روزگار کے مواقع محدود ہیں، کرپشن عام ہے اور سیاسی
جماعتیں آپسی اختلافات میں الجھی رہتی ہیں۔ ایسے میں جب عوام کو لگا کہ حکومت ان کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہو
چکی ہے، تو انہوں نے سڑکوں پر نکل کر اقتدار کو ہلا ڈالا۔ جانکاری کے مطابق نیپال میں یہ تبدیلی محض ایک سیاسی
بحران نہیں بلکہ ایک سماجی بیداری کا اظہار ہے، جہاں نوجوان طبقہ پرانی نسل کے سیاستدانوں کے خلاف آواز اٹھا رہا
ہے۔
اگر سری لنکا، بنگلہ دیش اور نیپال میں حالیہ سیاسی تبدیلیوں کو ایک ساتھ دیکھا جائے تو ان میں کئی اہم مشترکہ عناصر
سامنے آتے ہیں۔ سب سے نمایاں وجہ معاشی بدحالی ہے۔مہنگائی، بے روزگاری، اور غربت نے عوام کو شدید غم و غصے
میں مبتلا کیا۔ دوسرا بڑا عنصر بدعنوانی ہے، جس نے ریاستی اداروں پر عوام کا اعتماد متزلزل کر دیا۔ تیسری اہم وجہ
جمہوری اقدار کی پامالی ہے، جہاں حکمرانوں نے اپوزیشن کو دبانے، آزاد میڈیا پر پابندیاں لگانے اور عوامی آواز کو نظر
انداز کرنے کی روش اختیار کی۔ چوتھے عنصر کے طور پر سوشل میڈیا کا کردار سامنے آتا ہے، جس نے بکھری ہوئی
آوازوں کو یکجا کر کے ایک منظم عوامی تحریک میں بدل دیا۔ اور پانچواں اہم عنصر طاقتور ریاستی ادارے، خاص طور پر
فوج اور دیگر اثر و رسوخ رکھنے والے شعبے ہیں، جو ابتدا میں عوامی احتجاج کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن
بالآخر عوامی دباؤ کے سامنے نرمی اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ان سبھی عوامل کو جوڑ کر دیکھا جائے تو یہ بات
سمجھ آتی ہے کہ جنوبی ایشیا کے عوام اب زیادہ باشعور اور زیادہ بے خوف ہو چکے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر وہ متحد ہو
جائیں تو بڑے سے بڑا اقتدار بھی ڈگمگا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سری لنکا میں عوام نے صدارتی محل پر قبضہ کر لیا،
بنگلہ دیش میں طویل حکمرانی کا خاتمہ کر دیا اور نیپال میں وزیر اعظم کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا۔
اب سوال یہ ہے کہ دنیا نے ان واقعات پر کس طرح ردعمل ظاہر کیا؟ عالمی برادری کی نظریں ان تینوں ملکوں پر مرکوز
رہیں کیونکہ یہ خطہ نہ صرف جغرافیائی اعتبار سے اہم ہے بلکہ عالمی معیشت اور سیاسی توازن کے لیے بھی کلیدی حیثیت
رکھتا ہے۔ سری لنکا کے بحران پر سب سے پہلے بین الاقوامی مالیاتی ادارے متحرک ہوئے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے
معاشی اصلاحات کے بدلے مالی امداد کی پیشکش کی، جبکہ مغربی دنیا نے عوامی احتجاج کو جمہوری حق قرار دیا۔ بنگلہ
دیش کے معاملے میں امریکہ اور یورپی ممالک نے سیاسی استحکام کی اپیل کی اور زور دیا کہ عبوری حکومت شفاف
انتخابات کرائے۔ بعض مغربی میڈیا اداروں نے اس واقعے کو جنوبی ایشیا میں آمرانہ سیاست کے خاتمے کا آغاز قرار دیا۔
نیپال کے بارے میں اقوامِ متحدہ اور یورپی یونین نے تشویش ظاہر کی کہ ملک میں کرفیو اور بدامنی انسانی حقوق کی خلاف
ورزیوں کو جنم نہ دے۔ دیگر خطے کے طاقتور ممالک نے بھی محتاط ردعمل دیا اور زور دیا کہ نیپال میں امن و استحکام
قائم ہونا چاہیے تاکہ سیاسی انتشار معیشت کو مزید نقصان نہ پہنچائے۔
مجموعی طور پر عالمی ردعمل نے یہ واضح کیا کہ دنیا ان ممالک کے داخلی مسائل میں براہِ راست مداخلت نہیں کرنا چاہتی
لیکن سیاسی استحکام اور انسانی حقوق کے تحفظ کو لازمی سمجھتی ہے۔ سری لنکا کے لیے معاشی بحالی پر زور دیا گیا،
بنگلہ دیش میں جمہوری عمل کی حمایت کی گئی اور نیپال کے لیے امن و استحکام کی اپیل کی گئی۔ ان ردعمل نے اس بات
کو تقویت دی کہ عالمی برادری اب جنوبی ایشیا کے عوامی احتجاج کو محض داخلی شورش نہیں بلکہ ایک بڑے جمہوری
بیداری کے حصے کے طور پر دیکھنے لگی ہے۔
مستقبل کے حوالے سے یہ سوال اہم ہے کہ کیا یہ تبدیلیاں ان ممالک میں حقیقی جمہوریت کو مضبوط بنائیں گی یا یہ ممالک
ایک بار پھر نئے بحرانوں کا شکار ہو جائیں گے؟ تاریخ گواہ ہے کہ تختہ پلٹ کے بعد اکثر ممالک مزید انتشار کا شکار ہو
جاتے ہیں، کیونکہ کوئی واضح متبادل قیادت سامنے نہیں آتی۔ سری لنکا آج بھی معاشی مسائل سے جوجھ رہا ہے، بنگلہ دیش
میں عبوری حکومت غیر یقینی کا شکار ہے اور نیپال میں بھی سیاسی استحکام ابھی دور کی بات ہے۔ لیکن ایک بات اب
واضح ہو چکی ہے کہ عوامی شعور اور بیداری ایک ایسی حقیقت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگر حکمران عوام
کی خواہشات اور مسائل کو سنجیدگی سے نہ لیں، تو وہ اسی طرح کے دباؤ اور ردعمل کا سامنا کر سکتے ہیں، جیسا کہ
حالیہ برسوں میں ان تینوں ممالک میں دیکھنے کو ملا۔