بہار الیکشن ختم ہوچکا ہے،اسکے نتائج بھی سامنے آچکے ہیں،یہ الیکشن ملکی حالات کے پس منظر میں بہت اہم سمجھا جارہا تھا،پوری دنیا کی نگاہیں کہیں نہ کہیں بہار الیکشن اور اسکے نتائج پر ٹکی ہوئی تھی،اب جب کہ وہاں کے نتائج آچکے ہیں،آپ جب یہ تحریر پڑھ رہے ہونگے بہار میں نئی حکومت کی تشکیل ہوچکی ہوگی،بہار الیکشن اور اس کے نتائج سے متعلق اسکے مختلف پہلوؤں پر تجزیہ کیا جارہا ہے اور تحریریں لکھی جارہی ہیں،اس الیکشن کا سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ وہاں مسلم نمائندگی حیرت انگیز طور پر دن بہ کم ہوتی جا رہی ہے۔آزادی کے بعد سے اب تک 18 مرتبہ ہوئے بہار اسمبلی انتخابات میں اس بار سب سے کم یعنی صرف 11 مسلم ارکان ہی کامیاب ہوئے ہیں،ان میں سب سے زیادہ یعنی 5 مجلس اتحاد المسلمین کے ہیں،جے ڈی یو نے چار مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا تھا مگر صرف وزیر محمد زماں خان چین پور سے کامیاب ہوئے،جبکہ آر جے ڈی نے 18 مسلم امیدوار کھڑے کئے تھے لیکن صرف تین فتح یاب ہوئے،2020 میں 19 مسلم ارکان اسمبلی منتخب ہوئے تھے جو اب گھٹ کر صرف 11 ہو گئے ہیں،اسی طرح کانگریس کے 10 امیدواروں میں سے صرف دو کامیاب ہوئے،ان میں محمد قمر الہدی اور عابد الرحمن شامل ہیں،کانگریس کا مظاہرہ اتنا بدترین اور خراب رہا کہ پارٹی کے سینئر قائد شکیل احمد بھی اپنی کدوا سیٹ نہیں بچا پائے،اور احتجاج کے طور پر پارٹی سے استعفی بھی دے دیا،سی پی آئی ایم ایل پارٹی نے دو مسلم امیدوار کھڑے کئے تھے دونوں ہار گئے یہاں تک کے پارٹی کے سینئر قائد محبوب عالم بھی بلرام پور سے شکست کھا گئے،تاریخی طور پر 2005 میں سب سے کم یعنی 16 مسلم ایم ایل اے کامیاب ہوئے تھے،جبکہ 1985 میں سب سے زیادہ 34 ایم ایل اے منتخب ہوئے تھے،2020 میں بھی مجلس کے پانچ ایم ایل اے جیتے تھے،مگر ان میں سے چار آر جے ڈی میں شامل ہوگئے،بہار میں مسلم آبادی تقریبا 18 فیصد ہے،1952 سے 2025 تک وہاں مسلم ایم ایل اے کی تعداد کبھی 10 فیصد سے زیادہ نہیں رہی،ان 73 سالوں میں 18 اسمبلی انتخابات ہوئے اور کل 5214 ایم ایل اے منتخب ہوئے،جن میں 401 مسلم ارکان اسمبلی شامل ہیں،بہار کی تاریخ میں اب تک صرف عبدالغفور مسلم چیف منسٹر بنے مگر انہیں بھی پانچ سال مکمل نہیں گزارنے دیے گئے،وہاں ایک بھی مسلم ڈپٹی چیف منسٹر اب تک نہیں بن سکے،وہاں مسلم قائدین اور مسلم طبقے کو عموما ایک دو وزارتیں دی جاتی رہی ہیں اور اس سے زیادہ کچھ نہیں،2015 میں عبدالباری صدیقی کو وزیر فائنانس بنایا گیا تھا اور ابھی صرف محمد زماں خان اقلیتی فلاح و بہبود کے وزیر ہیں،بہار میں مسلمانوں کی آبادی کے حساب سے 43 مسلم ممبران ہونے چاہئے تھے لیکن تشویشناک بات یہ ہے کہ وہاں کی اسمبلی میں مسلم ممبران کی تعداد 34 سے زیادہ کبھی نہیں رہی،2025 کے لیے منتخب مسلم ارکان میں جے ڈی یو کے محمد زماں خان،آر جے ڈی کے فیض الرحمن ڈھاکہ،آصف احمد بسفی،اسامہ شہاب الدین رگھوناتھ پور،کانگریس کے عابدالرحمن ارریہ،محمد قمر الہدی کشن گنج اور مجلس کے محمد مرشد عالم جوکی ہارٹ،محمد توصیف عالم بہادر گنج،محمد سرور عالم کوچا دھامن،اختر الایمان امور،اور غلام سرور بائسی شامل ہیں۔
نتائج پر غور کیا جائے تو اس بار مسلم اکثریتی علاقوں میں مقابلہ راست نہیں تھا،تین پارٹیوں مجلس،جے ڈی یو اور بی جے پی نے آر جے ڈی کے روایتی اتحاد میں خلل ڈالا اور بری طرح سے نتائج کو متاثر کیا،سب سے اہم بات یہ ہے کہ جہاں کہیں بھی مجلس یا جے ڈی یو کی مضبوط موجودگی تھی،آر جے ڈی کے امیدوار وہاں تیسرے یا چوتھے مقام پر کھسک گئے،ان نتائج کا نمونہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ ان علاقوں میں مجلس ایک مضبوط متبادل کے طور پر ابھری اور مسلم ووٹ سیدھے طور پر ان کی جھولی میں گئے،جہاں جے ڈی یو نے مقامی طور پر مضبوط امیدوار کھڑے کیے،وہاں مسلم ای بی سی مقامی ذات کی مساوات آر جے ڈی کے خلاف ہو گئے اور بی جے پی نے اپنا غلبہ برقرار رکھا،ایسے میں مقابلہ دو طرفہ ہو گیا اور آر جے ڈی تیسرے نمبر پر کھسک گئی،درحقیقت اس بار مسلم اکثریتی علاقوں میں آر جے ڈی کو دونوں طرف سے انتخابی دھچکا لگا ہے،ایک طرف مجلس نے اپنا بنیادی ووٹ لیا تو دوسری طرف جے ڈی یو اور بی جے پی نے وسیع اتحاد کے ساتھ انہیں شکست دے دی،پورنیہ کی بائسی سیٹ پر مجلس کے غلام سرور پہلے نمبر پر ہیں،جبکہ بی جے پی کے ونود کمار دوسرے اور آر جے ڈی کے عبدالسبحان تیسرے نمبر پر رہے،یہ نتیجہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ مسلم ووٹ پوری طرح سے مجلس کی طرف منتقل ہو گیا ہے،دربھنگہ کے کیوٹی میں بی جے پی کے مراری موہن جھا آگے رہے جبکہ آر جے ڈی کے فراز فاطمی تیسرے نمبر پر کھسک گئے،مجلس کے محمد انیس الرحمن دوسرے نمبر پر ہیں یہ بھی ایک مضبوط اشارہ ہے کہ مقابلہ دو طرفہ نہیں تھا،سب سے دلچسپ اور سہ رخی مقابلہ جو کی ہاٹ میں تھا،یہاں مجلس کے خورشید عالم پہلے اور جے ڈی یو کے منظر عالم دوسرے نمبر پر رہے جبکہ جن سوراج کے سرفراز عالم تیسرے اور آر جے ڈی کے شہنواز عالم چوتھے نمبر پر آگئے،واضح رہے کہ سرفراز اور شاہنواز سابق رکن اسمبلی مرحوم تسلیم الدین کے بیٹے ہیں، ٹھاکر گنج میں بھی ایک بار پھر وہی نمونہ غالب ہوا جس میں مجلس کے غلام حسین پہلے،بی جے پی جے ڈی یو کے گوپال اگروال دوسرے، اور آر جے ڈی کے سعود عالم تیسرے نمبر پر آگئے،سمری بختیار پور میں بھی آر جے ڈی کے یوسف صلاح الدین،ایل جی پی رام ولاس پاسوان کے سنجے کمار سنگھ سے پیچھے رہے، کانتی حلقہ میں آر جے ڈی کے محمد اسرائیل منصوری دوسرے مقام پر پہنچے،جبکہ جے ڈی یو کے اجیت کمار پہلے مقام پر رہے،گوریا کوٹھی میں بی جے پی کے دیوش کانت سنگھ آگے رہے،جبکہ آر جے ڈی کے انوار الحق ان سے پیچھے ہیں،ناتھ نگر حلقہ سے آر جے ڈی کے شیخ ضیاء الحسن دوسرے نمبر پر ہیں جبکہ ایل جے پی رام ولاس کے متھن کمار پہلے نمبر پر ہیں،رفیع گنج حلقہ سے آر جے ڈی کے غلام شاہد پیچھے ہیں اور جے ڈی یو کے پرمود کمار سنگھ آگے رہے۔اسطرح آرجے ڈی کے 16 مسلم امیدواروں کو بری طرح شکست کا منھ دیکھنا پڑا۔بہار میں مسلم نمائندگی کے کم ہونے کے کئی اسباب ہیں،2008 کی نئی حد بندی کے بعد مسلم اکثریتی حلقے پوری ریاست میں صرف 11 ہیں اور تمام حلقے سیمانچل میں ہیں،یہاں کے مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ غربت اور تعلیم کی کمی ہے،ہر پانچ،دس سال کے بعد وہاں کچھ نئے لیڈران پیدا ہوتے ہیں جو انقلاب کی بات کرتے ہیں جس کے نتیجے میں کئی مسلم امیدواروں میں سیدھی ٹکر ہوتی ہے اور ان مسلم اکثریتی حلقوں سے بھی بی جے پی یا اس کی اتحادیوں کے امیدوار کامیاب ہو جاتے ہیں۔تعلیم یافتہ دیندار اور مالدار مسلمان سیاست میں وہاں دلچسپی نہیں لیتے بلکہ انگریزی تعلیم یافتہ مسلمانوں کی اکثریت ووٹ بھی نہیں دیتی وہ راہل اور مودی میں کوئی فرق نہیں سمجھتی،یہ بھی ایک سبب ہے،عام طور پر بڑی پارٹیاں 30 فیصد یا اس سے زائد فیصد مسلم آبادی والے حلقوں سے مسلمانوں کو ٹکٹ دیتی ہے مگر وہاں بھی کئی کئی مسلم امیدوار بطور آزاد یا دوسری چھوٹی چھوٹی پارٹیوں سے آمنے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں،جسکا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مسلم امیدوار کامیاب نہیں ہو پاتے،مسلم امیدوار وہیں کامیاب ہوتے ہیں جہاں مسلمانوں کا ووٹ متحد ہو اور غیروں کا ووٹ منتشر ہو،ہندو متعصب ہوں یا معتدل،مسلم قیادت کو بالکل تسلیم نہیں کرتے،بلکہ مسلم پارٹی کے کسی ہندو امیدوار کو بھی وہ کامیاب نہیں ہونے دیتے،متعصب ہندو مسلمانوں کو کچھ بھی نہیں دینا چاہتے اور معتدل ہندو مسلمانوں کو بہت زیادہ آگے بڑھنے نہیں دینا چاہتے،مسلم نمائندگی کی کمی کا ایک سبب سیکولر پارٹیوں کی بڑھتی ہوئی کمزوری اور ناانصافی بھی ہے،2015 میں 24 مسلم امیدوار بہار اسمبلی میں منتخب ہو کر گئے تھے مگر 2020 میں صرف 19 اور حالیہ انتخاب میں صرف 11 مسلم امیدوار کامیاب ہوئے ہیں،یہ کمی انتہائی تشویشناک ہے۔
بہار کی پہلی اسمبلی 1951-52 میں کل اسمبلی نشستیں 330 تھی اور مسلم ممبران اسمبلی 23 تھے،دوسری اسمبلی 1957 میں کل اسمبلی نشستیں 318مسلم ممبران اسمبلی 24 تھے،تیسری اسمبلی 1962 میں کل اسمبلی نشستیں 318 مسلم ممبران اسمبلی 20 تھے،چوتھی اسمبلی 1967 میں کل اسمبلی نشستیں 318 مسلم ممبران اسمبلی 17 تھے،پانچویں اسمبلی 1969 میں کل اسمبلی نشستیں 318 مسلم ممبران اسمبلی 19،چھٹی اسمبلی 1972 میں کل اسمبلی نشستیں 318 مسلم ممبران اسمبلی 22، ساتویں اسمبلی 1977 میں کل اسمبلی نشستیں 324 مسلم ممبران اسمبلی 24،آٹھویں اسمبلی 1980 میں کل اسمبلی نشستیں 324 مسلم ممبران اسمبلی 28،نویں اسمبلی 1985 میں کل اسمبلی نشستیں 324 اورمسلم ممبران اسمبلی 31 تھے،دسویں اسمبلی 1990 میں کل اسمبلی نشستیں 324 مسلم ممبران اسمبلی 24،گیارہویں اسمبلی 1995 میں کل اسمبلی نشستیں 324 مسلم ممبران اسمبلی 23،بارہویں اسمبلی 2000 میں کل اسمبلی نشستیں 324 اور مسلم ممبران اسمبلی 29 تھے،تیرہویں اسمبلی فروری 2005 میں کل اسمبلی نشستیں 243 اور مسلم ممبران اسمبلی 23 تھے،چودہویں اسمبلی اکتوبر 2005 میں کل اسمبلی نشستیں 243 مسلم ممبران اسمبلی 16 تھے،پندرہویں اسمبلی اکتوبر 2010 میں کل اسمبلی نشستیں 243 اورمسلم ممبران اسمبلی 19تھے،سولہویں اسمبلی اکتوبر 2015 میں کل اسمبلی نشستیں 243 اورمسلم ممبران اسمبلی 24 تھے سترہویں اسمبلی اکتوبر 2020 میں کل اسمبلی نشستیں 243 اور مسلم ممبران اسمبلی 19تھے،اٹھارہویں اسمبلی اکتوبر 2025 میں کل اسمبلی نشستیں 243 مسلم ممبران اسمبلی 11ہیں۔ ان تفصیلات کو جاننے کے بعد یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اب الیکشن صرف ایک رسمی تقریب بن چکا ہے،عوامی مسائل انکی ضروریات اور انکی ترجیحات کوئی معنی نہیں رکھتے،حکمراں طبقہ جب تک چاہئے گا وہ اقتدار میں برقرار رہنے کےلئے نتائج میں الٹ پھیر،دھاندلی،دستور کی پامالی کچھ بھی کرسکتاہے،الیکشن آئے گا چلا جائیگا،حکمراں جماعت کو کوئی ہلا بھی نہیں سکتا، اسے ہٹانا اورگرانا تو دور کی بات،کوئی انکا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، کل کو آن لائن ووٹنگ جیسے معاملات بھی ہوسکتے ہیں،ملک بہت تیز رفتاری سے ایک خاص سمت میں بڑھ رہا ہے،نتائج کی ذمہ داری کسی ایک پر نہیں آتی،مسلم قیادت کی دعویدار اویسی پر تو قطعی نہیں،الیکشن کمیشن کی تاریخی جانبداری سب سے بڑی وجہ ہے،جو الیکشن یادو اور کمار،بہاری بمقابلہ بہاری کے درمیان ہورہا تھا،اسے اویسی صاحب اور انکے کچھ لوگوں نے ہندو بمقابلہ مسلم بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ ی،اب جب اسد اویسی نے مسلم قیادت کی بات کی ہے، کہ دیگر پارٹیاں مسلمانوں کو ٹکٹ نہیں دیتی تواس کے جواب میں بی ے پی کے کئی لیڈر نے صاف صاف کہا ہے کہ جب مسلمان ہم کو ووٹ ہی نہیں دیتے تو ہم انکو ٹکٹ کیوں دیں؟ بالکل جائز وجہ ہے، کل کو دیگر سیکولر پارٹیاں بھی کھل کر اگر یہ کہنے لگیں کہ ہم کو مسلمانوں کے ووٹ کی ضرورت نہیں،آپ قطعا ہم کو ووٹ نا دیں،اپنی پارٹی بنالیں اور پھر اسی پارٹی کو ووٹ کریں،جیسا آسام میں ہورہا ہے، تب تصور کیجئے مسلمانوں کی حالت اس وقت کیا ہو گی؟دھوبی کے کتے سے بھی بری ہوجائیگی اور یہ دن آچکے ہیں،کئی ریاستوں میں ایسا ہورہا ہے،مسلمان اصل قومی دھارے سے کاٹے جارہے ہیں اور الگ کئے جارہے ہیں ہم رفتہ رفتہ اسی جانب بڑھ رہے ہیں جو ہمیں سیاسی اچھوت بنادے گی،آج آسام،اترکھنڈ،اروناچل وغیرہ میں صاف صاف کہا جارہا ہے اور ہر پارٹی کہہ رہی ہے کہ مسلمان ہم کو وووٹ نہ دے،کیا ہم اسطرح اپنی سیاسی قبر کھود رہے ہیں؟ کسی کے دلفریب اور جذباتی باتوں میں آکر اپنی جماعت اپنی، قیادت،اس بات پر عمل بھی ہوا،اور اسکا نتیجہ کیا نکلا اگر یہ دیکھنا ہوتو آسام جاکر دیکھئے،وہاں دن کے اجالے میں کھلے عام کیا کچھ نہیں ہورہاہے،مسلم قیادت نے پریس کانفرنس کرنے کے لئے کیسا خوبصورت مذہبی بیک گراؤنڈ کا انتخاب کیا،مسلم جماعت کے نام پر اب تو مسلم ایم ایل اے کی تعداد تیس سے۔ساٹھ ہونی چاہئے تھی، پچھلی اسمبلی میں اگر مسلم نمائندگی تقریبا بیس تھی تو آج مسلم قیادت کے نام پر جو الیکشن لڑا گیا اس میں تو یہ تعداد بڑھکر 40 ہونی چاہئے تھی،پھر یہ کم ہوکر دس گیارہ پر کیوں آگئی؟ کون ہے اسکا ذمہ دار اور کہاں جارہا ہے مسلمان؟ اور کیا ہوگا اسکا انجام؟ یہ کیا گیم چل رہا ہے؟ مسلم قیادت کے نام پر مسلم نمائندگی میں حیرت انگیز کمی تشویشناک نہیں ہے؟اگلے الیکشن میں اگر یہ تعداد پھر نصف یاختم ہوجائے تو آگے کیا ہوگا؟ پھر آپ کے پاس کونسا راستہ بچے گا؟ذرا سنجیدہ ہوکر سوچئے گا ضرور!
*(مضمون نگار،معروف صحافی اور کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)*
