یوم تاسیس پرخصوصی پیشکش
ازقلم۔۔۔محمد محفوظ قادری 9759824259
اللہ رب العزت قرآن عظیم میں ارشادفرماتا ہے کہ ’’بینا اور نابینا برابر نہیں ہوسکتے،اندھیرا اور اجالا برابر نہیں ہوسکتے،سایہ اور دھوپ برابر نہیں ہوسکتے ‘‘(سورئہ فاطرآیت 19تا21)اسی طرح پڑھا لکھا انسان اور انپڑھ انسان برابر نہیں ہو سکتے ۔
جس طرح بینا نابینا انسان سے بڑا ہوا کرتا ہے اسی طرح اجالااندھیرے سے بڑا ہوا کرتا ہے اور سایہ دھوپ سے۔اسی طرح پڑھا لکھا انسان انپڑھ انسان سے بڑاہوا کرتا ہے۔
اسی بات کا ذکر کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا ’’کہ اہل علم سے سوال کرو جس بات کا تم کو علم نہیں ہے‘‘(سورئہ نحل آیت 43)اسی لئے تعلیم حاصل کرنا ہرقوم ومذہب کے تمام لوگوں کی سب سے پہلی ذمہ داری ہے خاص طور سے قوم مسلم کی،اور قوم مسلم کا تو آغاز ہی اقراء سے ہوا ہے۔
اب اس تعلیم کے حصول کے مختلف ذرائع ہو سکتے ہیں سب سے پہلا ذریعہ مدارس اسلامیہ ہیں پھر اسکول،کالج اوریونیورسیٹیاں ہیں۔
جب بچہ ان جگہوں پر تعلیم حاصل کر لیتا ہے اس کے اندر اپنی بات کو کہنے وسمجھانے اور دوسرے کی بات کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے تو اس کومطالعہ کا شوق بھی مزید بڑھنے لگتا ہے۔وہ مطالعہ کیلئے لائبریریوں و کتب خانوں کی طرف رُخ کرتا ہے جہاں وہ مختلف موضوعات وفن پر کتب کامطالعہ کرکے اپنی قوم ومعاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کے خاتمہ کی پر زور کوشش کرتا ہے۔کیونکہ تعلیم کو عام کرنے کاجو راستہ تعلیمی اداروں سے نکلتا ہے وہ کتب خانوں میں آکر مل جاتا ہے،ان دونوں کے باہمی تعاون سے ہی ملک اورمعاشرے میں علم کااجالاپھیلتاہے۔تاریکیاں چھٹنے لگتی ہیں۔علم کے ذریعہ ہی معاشرے سے پھیلی ہوئی برائیوں کاخاتمہ کیا جاسکتا ہے۔علم کے ذریعہ انسان بڑوں کا ادب واحترام،چھوٹوں پر شفقت،عبادات،معاملات جیسے تمام طور طریقے سیکھتا ہے۔
لائبریریاں علوم وفنون اور معلومات کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں۔
لائبریری اس جگہ کو کہتے ہیں کہ جہاں احکام الٰہی،فرمان رسول،کتابوں،اخباروں،رسالوں اور دیگر معلومات کا مواد فراہم کیا جاتا ہے۔
اردو اورفارسی میں لائبریری کو ’’کتب خانہ‘‘ کہا جاتا ہے۔لائبریری ایک ایسی جگہ ہوتی ہے کہ جہاں کلام الٰہی کے نادرونایاب نسخے،احادیث رسول،محدثین،مفسرین کی تفاسیر۔ہزاروں سال کا علمی و فکری اثاثہ اور ہزار ہا علم وادب سے تعلق رکھنے والوں کی قلمی کا وشوں کو جمع کیا جاتا ہے۔
ساتھ ہی محققین کی تحقیقات،مصنفین ومترجمین کی کتب وتراجم،قلم کاروں کی تحریر کا سرمایہ،شاعروں،نثر نگاروں،ادیبوں اور خطیبوں کی قلمی محنتوں کا ثمرہ ایک چہاردیواری’’لائبریری‘‘میں دستیاب ہوتا ہے۔لائبریری ایک ایسی جگہ ہے جو جہالت سے علم اور اندھیرے سے نور کی طرف نکال کر لے جاتی ہے ۔
یوں تو ہمارے وطن عزیز ہندوستان میں بہت سی لائبریر یاں و کتب خانے ہیں۔
لیکن ہمارا شہر رامپور (یو۔پی)بھی علم وادب کا گہوارہ کہلاتا ہے جسے غالب نے دارالسرور بھی کہاہے یہ بر صغیر کا وہ مردم خیز خطہ ہے جہاں محلہ محلہ عالم ،صوفی،شاعراورطبیب علوم وفنون کی بے انتہا خدمت کرتے پائے گئے۔
رامپور ریاست کا قیام 1774ء۔1188ھ میں عمل میں آیا اسی وقت سے یہاں علماء،صوفیاء،ادباء اور شعراء کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔1857ء تحریک آزادی کا سال جو پورے ملک کیلئے بے چینی و بے قراری کا تھالیکن رامپور کیلئے ترقی کا ضامن ثابت ہوا۔
اُس وقت کے صاحبان علم وفن جن کو برصغیر میں کہیں بھی سر چھپانے کیلئے جگہ میسر نہیں تھی رامپور ان کیلئے جائے پناہ بنا امیر مینائی،غالب،داغ،تسلیم،منیر جیسے باکمال لوگ شمالی ہند سے سمٹ کر رامپور میں جمع ہوئے۔اور رامپور ’’بخارائے ہند‘‘کہلانے لگابقول امتیاز علی خاں عرشی ماہر غالبیات ۔
مشرقی علوم کی دانش گاہ مدرسہ عالیہ عالمی شہرت کا حامل تھا۔
بانیان ریاست(رامپور)کا ذاتی کتب خانہ جوآج’’رضا لائبریری،رامپور‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے ان کے علمی ذوق و شوق کی زندہ جاوید یاد گار ہے اسی شہر میں مدارس،اسکول،کالج،یونیورسٹی کی موجودگی کے ساتھ ایک اور’’صولت پبلک لائبریری‘‘ ہے اس لائبریری کو صولت علی خاں مرحوم نے ایثاروقربانی،خلوص اور قوم مسلم کا درد اپنے دل میں لئے ہوئے ساتھ ہی قوم مسلم کی ترقی وبقا کو پیش نظر رکھتے ہوئے 1934ء میں قائم کیا تھا۔
صولت علی خاں کے والد کا نام عظمت علی خاں تھا۔
آپ (صولت علی خاں)1894ء میں رامپور میں پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم اردو،فارسی اور قرآن شریف گھر پر رہ کر پڑھا۔
آگے کی تعلیم اسٹیٹ ہائی اسکول جو اب(حامد انٹر کالج) کے نام سے جانا جاتاہے میں حاصل کی۔
پھر کالونس تعلقدارکالج لکھنؤ میں تعلیم حاصل کی۔
آپ کو شروع سے ہی مطالعہ کا شوق تھا اور قوم کی اصلاح کاجذبہ آپ کے دل میں موجزن تھا آپ نے تمام علوم و فنون پر کثیر کتب جمع کیں اسی دوران آپ رامپور مونسپل بورڈ کے 1934ء میں پہلے چیرمین منتخب ہوئے۔
اسی سال آپ نے باقاعدہ عوامی کتب خانہ کی بنیاد ڈالی جو آج ’’صولت پبلک لائبریری‘‘کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔
یہ کتب خانہ ابتدا میں محلہ راجدوارہ میں افسر اعلیٰ کی کوٹھی پر قائم ہوا تھا۔
اُس وقت کتب خانہ کا نام ’’کتب خانہ عام‘‘ ریاست رامپور رکھا گیا تھا۔
لائبریری کی کثیر کتابوں پر آج بھی ’’کتب خانہ عام‘‘ کی مہریں دیکھنے کو ملتی ہیں۔
صولت علی خاں کا ذاتی کتابوں کا ذخیرہ جو انہوں نے ’’کتب خانہ عام ‘‘کو دیا تھا اس میں مذہبی،سیاسی،تاریخی،جدید علوم ،اردو،فارسی،عربی ،انگریزی ہر فن کی کتابیں موجود تھیں۔
اِس کتب خانہ کی سرپرستی اُس وقت نواب رضا علی خاں کو دی گئی انہوں نے بخوشی اس ذمہ داری کو قبو ل کیااور ساتھ ہی آپ نے کتب خانہ کیلئے گرانٹ بھی ماہانہ پچاس روپے کے حساب سے چھہ سوروپے سالانہ مقرر کی۔
لائبریری کے نام میں تبدیلی:
19مارچ 1935ء کو اتفاق رائے سے کتب خانہ سے بدل کر ’’صولت پبلک لائبریری ‘‘نام رکھ دیا گیا۔
عمارت کی منتقلی:
دن بدن کتابوں کی تعداد بڑھنے لگی شائقین علم وادب لائبریری کی طرف رجوع ہونے لگے تو جگہ کی تنگی کومحسوس کرتے ہوئے ذمہ دارافراد نے اتفاق رائے سے لائبریری کو راجدوارہ سے منتقل کر کے شاداب مارکیٹ کے برابر وجن خاں کے مکان پر منتقل کیا۔کچھ عرصہ کے بعد یہ مکان بھی لائبریری کیلئے چھوٹا محسوس کیاجانے لگا۔جیسا کہ نواب رضاعلی خاں لائبریری کی سرپرستی پہلے ہی قبول کرچکے تھے۔ مولوی ضیاء اللہ خاں اور امتیاز علی خاعرشی کی دعوت پرپہلی بار6نومبر 1935ء کو نواب رضا علی خاں لائبریری تشریف لائے۔
اور لائبریری میں کتب علوم وفنون کے ذخیرہ کو دیکھ کر جناب صولت علی خاں اور آپ کے ساتھ دانشواران رامپور کے اس قدم کی تعریف کی جو آج بھی لایبریری کے رکارڈ میں محفوظ ہے اور جامع مسجد کے برابر حضور تحصیل کی بالائی منزل جس میں اس وقت لائبریری قائم ہے،لائبریری کیلئے وقف کی۔
اور اپنے ذاتی کتب خانہ سے دوہزار پچیس مکررات صولت پبلک لائبریری کو دئے۔
ان نوازشات کے ساتھ لائبریری نے دن بدن تیزی سے ترقی کی منازل طے کرنا شروع کردیں۔کتابوں کے ذخیرہ میں خاطرخواہ اضافہ ہونا شروع ہو گیاحافظ احمدعلی خاں شوق(مصنف تذکرہ کاملان رامپور) جو پہلے کتب خانہ سرکاری کے ناظم تھے ان کا ذاتی کتب خانہ بھی صولت پبلک لائبریری کو دے دیا گیا۔
آج بھی صولت پبلک کی لائبریری کی کتابوں پر’’کتب خانہ خاص حافظ احمدعلی شوق‘‘عبارت تحریری ہے۔
31مارچ 1936ء تک کتابوں کی تعداد نوہزار تھی اُس وقت انتالیس اخبارات اور چودہ رسائل لائبریری آتے تھے لائبریری سے شائع روداد کے مطابق جن کا پچیس ہزار افراد نے مطالعہ کیا تھا اس سے اہل رامپور کے علمی ذوق ومطالعہ کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
31مارچ 1938ء ۔اور 24مارچ 1939ء کے جلسہ عام کی رپورٹ کے مطابق مولوی خلیق احمدکے معتمد رہتے ہوئے عوام میں مطالعہ کا شوق تیزی سے بڑھ رہا تھا کیونکہ لائبریری ایک بڑی عمارت میں منتقل ہوچکی تھی۔
1938ء میں آٹھ ہزار کتابوں کو عوام کے مطالعہ کیلئے جاری کر دیا گیاتھا۔اُس وقت شہر ومقامی سرکردہ شخصیات کے علاوہ ملک وعالم گیر شخصیتوں کی لائبریری میں آمد ہورہی تھی۔
ہر کسی نے اہل رامپور کے اس عظیم علمی کارمامہ ’’صولت پبلک لائبریری ‘‘کو خوب سراہا تھا۔
خالد شیلڈرک(نومسلم مبلغ اسلام ،باشندئہ لندن )
مولانا سید ہاشمی فرید آبادی،خواجہ حسن نظامی،سر آغاں خاں،سید سلمان ندوی ،نیاز فتحپوری،مولانا عبد الماجد دریا بادی اورجوش ملیح آبادی۔قرۃ العین حیدر،پروفیسر غضنفر علی وغیرہ جیسی علمی دوست شخصیات لائبریری کا معائنہ کر چکی ہیں۔
24مارچ 1939ء کے اجلاس میں اُس وقت کے معتمد مولوی خلیق احمد نے کہا تھا کہ آپ بہت جلد اس کتب خانہ کو ملک کے سب سے بڑے کتب خانہ کی شکل میں دیکھیں گے شرکائے اجلاس نے بیک زبان ’’آمین‘‘کی صدائیں بلند کی تھیں۔
آپ کی یہ دعا قبول ہوئی بلاشبہ آج یہ لائبریری ملک کے بڑے کتب خانوں میں شمار کی جاتی ہے۔ستمبر1950ء میں اسٹوڈینٹس پبلک لائبریری (راجدوارہ)کا ذخیرئہ کتب بھی صولت پبلک لائبریری کو منتقل کر دیا گیاجس کو اخلاق احمد نے قائم کیا تھا۔
لائبریری میں کتابوں کی تعداد کا تعین مشکل ترین کام ہے۔لیکن یہاں تقریباًاسی(80)ہزار سے زائد کتب ہیں سب سے زیادہ کلکشن اردو مطبوعات کا ہے،اس کے بعد انگریزی مطبوعات،اس کے بعد ہندی مطبوعات،پھر فارسی وعربی مطبوعات،عربی اورفارسی کے پانچ سو پچپن مخطوطات بھی ہیں۔
یہ لائبریری صرف کتب خانہ ہی نہیں ہے بلکہ رامپور کی علمی،ادبی ،ثقافی،سیاسی سر گرمیوں کا مرکز بھی ہے۔
اور ساتھ ہی لائبریری میں ادبی نشستوں کا باقاعدہ اہتمام ہوتا ہے۔لائبریری کی یہ بھی تاریخ رہی ہے کہ ادبی،تاریخی،معاشرتی،اخلاقی مضامین پڑھنے والوں کو ان کی بہتر کارگردگی پرہمت افزائی کر کے لائبریری کی طرف سے ان کو انعامات سے نوازہ جاتا ہے۔
21ستمبر 2023ء کو لائبریری کو قائم ہوئے 89سال پورے ہورہے ہیں اور نواسی ویں(89) یوم تاسیس کی سرگرمیاں لائبریری میں نادرونایاب مخطوطات کی نمائش کے ساتھ شروع ہو چکی ہیں۔
جدید ٹکنالوجی کے دور میں لائبریری آنے والوں کی تعداد میں افسوس ناک حد تک کمی واقع ہوئی ہے اس کے باوجود کتب خانہ ملت کا علمی اثاثہ ہے۔