37.3 C
Delhi
جون 14, 2025
مضامین

ملک کی معیشت تباہ اورحکومت نزاعی مسائل کو ہوا دینے میں مصروف!

سرفرازاحمدقاسمی حیدرآباد
رابطہ: 8099695186
          حکومت ہند نےگزشتہ دس سال کے دوران عام ہندوستانی شہریوں کو مختلف مسائل میں الجھائے رکھتے ہوئے  حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی جسکا نتیجہ یہ ہے کہ اب ہندوستانی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے لیکن وہ طبقہ جو تجارتی سرگرمیوں میں ماہر تصور کیا جاتا ہے،تجارتی مندی اور کاروبار کی سست رفتاری پر رد عمل کا اظہار کرنے کے بجائے حکومت کے پیدا کردہ دیگر مذہبی اور اختلافی مسئلے میں الجھ کر لاکھوں کروڑ کے نقصانات پر بھی خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔2024-25 کے دوران جو ہندوستانی سرمایہ کاروں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ہندوستانی معیشت میں جو گراوٹ آئی ہے،اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ حکومت نے ملک کو درپیش معاشی مسائل اور معیشت کے نقصانات پر بات کرنے کے بجائے فرقہ پرستی کو ہوا دیتے ہوئے،عوام کو الجھائے رکھا ہے،وزارت تجارت سے جاری اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو گزشتہ ماہ ہندوستانی تجارتی سرگرمیوں میں مسلسل چوتھے ماہ گراوٹ آئی ہے، ہندوستانی برآمدات ماہ فروری میں گھٹ کر 36.91 بلین ڈالر رہ گئی ہیں،جبکہ سال گزشتہ ماہ فروری میں جملہ برآمدات 41.41 بلین ڈالر کی تھیں،حکومت کی جانب سے برآمدات میں گراوٹ کے باوجود مالیاتی خسارے کا اعتراف کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ملک کی معیشت انتہائی خطرناک موڑ پر کھڑی ہے کیونکہ مالی سال 2024 25 میں شیئر مارکیٹ میں خسارہ اور سرمایہ کاروں کو لاکھوں کروڑ کے نقصانات اور بازار میں حصص کی قیمتوں میں گراوٹ سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ بیرونی سرمایہ جو ہندوستانی شیئر بازار میں تھا اس کی نکاسی تیزی سے جاری ہے،ملک میں معاشی عدم استحکام کے باوجود مرکزی حکومت کی جانب سے ان مسائل سے نمٹنے کے بجائے غیر اہم مسائل پر توجہ دی جا رہی ہے اور عوام کو منقسم کرنے کے منصوبے پر عمل ہو رہا ہے،ہندوستان میں وقف بل اورنگزیب اور دیگر فرقہ وارانہ مسائل سے زیادہ اہم مسئلہ ملک کی گرتی معاشی صورتحال کے دوران حکومت سے بیرونی مصنوعات بالخصوص الیکٹرانک وہیکل پر عائد ٹیکس پر مراعات کی فراہمی کا فیصلہ ہے،ہندوستان میں امریکی کمپنیوں بالخصوص ایلان مسک کے داخلے کے لئے سرخ قالین ہندوستانی معیشت کو مزید تباہ کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ لیکن مرکزی حکومت خاموشی کے ساتھ ملک کے خالی خزانوں کو بھرنے بیرونی کمپنیوں کو منمانی مراعات کی فراہمی میں مصروف ہے۔
دوسری طرف ہندوستان میں نفرت انگیز تقاریر کے ذریعے عوام میں منافرت پھیلانے اور انہیں متنفر کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ہندوستانی اقلیتوں کو نشانہ بنانے والوں کے ریکارڈس جمع کرنے والے ادارے کی جانب سے تیار کردہ رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں سب سے زیادہ نفرت انگیز تقاریر کرنے والے شخص کا نام یوگی آدتیہ ناتھ ہے جو کہ ریاست اتر پردیش کے چیف منسٹر کے عہدے پر فائز ہیں،جبکہ نفرت انگیز تقاریر کرنے والوں کی فہرست میں دوسرے نمبر پر ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کا نام دیا گیا ہے ‘انڈیا ہیٹ لیاب’ کی جانب سے 2024 کے دوران ہندوستان میں کی جانے والی نفرت انگیز تقاریر کے سلسلے میں جو رپورٹ شائع کی گئی ہے،اس میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں سال 2024 کے دوران جملہ 1165 نفرت پر مبنی تقاریر کی گئیں،جس میں 1050 تقاریر ایسی رہی جو کہ خالص مسلمانوں کے خلاف کی گئیں،جبکہ 97 ایسی تقاریر کی نشاندہی کی گئی ہے،جس میں مسلمانوں اور عیسائیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے،اس کے علاوہ 18 تقاریر ایسی ریکارڈ کی گئی ہے جو کہ خالص عیسائیوں کے خلاف کی گئی ہیں، جاریہ سال کے ابتدا میں جاری کی گئی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انتخابات کے سال 2024 کے دوران ملک میں نفرت انگیز تقاریر میں 73 فیصد سے زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا اور ملک میں انتخابی ضابطہ اخلاق کے دوران بھی نفرت پر مبنی تقاریر کی جاتی رہی ہیں،انڈیا ہیٹ لیاب کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان بھر میں کی جانے والی 1165 نفرت انگیز تقاریر جو کہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف کی گئی ہیں ان میں سب سے زیادہ ریاست اتر پردیش میں 242 مہاراشٹر میں 210 اور مدھیہ پردیش میں 98 نفرت انگیز تقاریر کی گئی ہیں،مذکورہ تین ریاستوں میں جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے حلیفوں کی حکومت ہے ان میں جملہ 47 فیصد نفرت انگیز تقاریر کی گئی ہیں،اسی طرح جو نفرت انگیز تقاریر کی گئی ہیں ان میں جملہ 340 تقاریر ایسی ہیں جو کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے پلیٹ فارم سے کی گئی ہیں، جبکہ دوسرے نمبر پر وشو ہندو پریشد بجرنگ دل کے پلیٹ فارم سے 279 نفرت انگیز تقاریر کی گئی ہیں، اور 8 تقاریر انتر راشٹریہ ہندو پریشد اور راشٹریہ بجرنگ دل کے پلیٹ فارم سے کی گئی ہیں،رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جملہ 685 تقاریر یعنی58.8 فیصد تقاریر آر ایس ایس اور اس کی محاذی ہندوتوا تنظیموں کے پلیٹ فارمس سے کی گئی ہیں جو کہ ملک میں اقلیتوں کے خلاف نفرت پھیلانے والی تقاریر ہیں، گزشتہ سال کے دوران کی جانے والی نفرت انگیز تقاریر میں وہ 10 افراد جنہوں نے زہر افشانی کی ہے،ان میں 6 کا تعلق بھارتیہ جنتا پارٹی سے ہے جو کہ سیاسی قائدین ہونے کے ساتھ ملک کے اعلی ترین عہدوں پر بھی فائز ہیں،ان میں وزیراعظم نریندر مودی،چیف منسٹر اتر پردیش یوگی آدتیہ ناتھ،مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ،شامل ہیں۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے والوں میں یوگی آدتیہ ناتھ سرفہرست ہیں جنہوں نے 2024 کے دوران 66 نفرت انگیز تقاریر  کا ریکارڈ قائم کیا ہے،جبکہ وزیراعظم نریندر مودی دوسرے نمبر پر ہیں جس کے حصے میں 67 نفرت انگیز تقاریر آئی ہیں،اسی طرح تیسرے نمبر پر حسب توقع مرکزی وزیر داخلہ ہیں،جنہوں نے 58 نفرت انگیز تقاریر اس مدت کے دوران کرتے ہوئے یہ مقام حاصل کیا ہے،اس کے بعد چوتھے نمبر پر چیف منسٹر آسام ہیمنت بسوا شرما ہے جنہوں نے سال 2024 کے دوران 36 مرتبہ مسلمانوں کی دل آزاری کی ہے،جبکہ پانچویں نمبر پر سریش چاونکے نامی نام نہاد صحافی ہے اور اس نے بھی 36 مرتبہ زہر افشانی کی ہے،اس کے بعد حیدرآباد کے رکن اسمبلی گوشہ محل ٹی راجہ سنگھ کا نمبر آتا ہے۔ جس نے سال 2024 کے دوران 32 مرتبہ زہر افشانی کرتے ہوئے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ملک میں 2024 میں عام انتخابات کے دوران جملہ 373 نفرت انگیز تقاریر ریکارڈ کی گئی ہیں جبکہ ملک بھر میں انتخابی ضابطہ اخلاق نافذ تھا،انڈیا ہیٹ لیاب کی جانب سے جاری کردہ اس رپورٹ میں ہندو مذہبی پیشواؤں کی جانب سے کی جانے والی نفرت انگیز تقاریر کا ریکارڈ پیش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جملہ نفرت انگیز تقاریر میں 114 نفرت پر مبنی تقاریر ہندو مذہبی شخصیات کی جانب سے کی گئی ہیں،ہندوستان میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف جاری مظالم اور ان کے خلاف کی جانے والی زہر افشانی کے سلسلے میں خانگی اداروں کو مکمل تفصیلات حاصل ہونے لگی ہیں لیکن ملک کی وہ ایجنسیاں جو کہ نفرت پھیلانے کے عمل پر قابو پانے کی ذمہ دار ہیں،انہیں ایجنسیوں کی جانب سے کسی بھی طرح کی کوئی کاروائی نہ کئے جانے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں ہندوتوا  طاقتوں کو اقلیتوں کو نشانہ بنانے اور ان کے خلاف زہر افشانی کی کھلی چھوٹ فراہم کی جا چکی ہے اور وہ نفرت پر مبنی تقاریر کے ذریعے شہریوں کے درمیان نفرت پھیلاتے ہوئے ملک میں نفرت پر مبنی سیاست کو فروغ دینے کی ان کوششوں کو کامیاب بنانے میں مصروف ہیں۔
آئیے اب ذرا جائزہ لیتے ہیں اپنے ملک بھارت کی معاشی صورت حال کا  اوریہاں کی معیشت کی پوزیشن کیاہے؟ ملک کس طرح کنگال ہورہاہے،اس کو سمجھنے کے لئے گزشتہ ماہ کی یہ رپورٹ ملاحظہ کیجئے۔”ہندوستان دنیا کی تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت میں سے ایک ہے،غور کرنے والی بات یہ ہے کہ ہندوستان کی آبادی تقریبا 1.4 ارب ہے اور اتنی بڑی آبادی میں سے تقریبا 100 کروڑ لوگوں کی حالت یہ ہے  کہ ان کے پاس اشیائے ضروریہ کے علاوہ کچھ بھی خریدنے کو پیسے نہیں ہیں،یعنی بھارت کو کنگال بنادیاگیا،’بلوم وینچرس’ کی سنسنی خیز ایک نئی رپورٹ میں اس تعلق سے کچھ اہم انکشافات ہوئے ہیں،اس رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں ضرورت سے زیادہ خرچ کرنے والے لوگوں کی تعداد 13 سے 14 کروڑ کے درمیان محدود ہے،یہ تعداد اتر پردیش کی آبادی سے بھی کم ہے،اس کے علاوہ 30 کروڑ ایسے لوگ ہیں جو دھیرے دھیرے خرچ کرنا سیکھ رہے ہیں،لیکن ان کی جیبوں میں اتنے پیسے نہیں بچ رہے ہیں کہ وہ اضافی خرچ کر سکیں،ڈیجیٹل پیمنٹس نے ہندوستانی شہریوں کی خریداری کو آسان تو بنا دیا ہے لیکن لوگوں کے خرچ کرنے کی عادتوں میں اب بھی پس و پیش کی کیفیت بنی ہوئی ہے،ہندوستان میں امیروں کی تعداد میں اس تیز رفتاری کے ساتھ اضافہ نہیں ہو رہا ہے،جتنی تیزی سے امیروں کی دولت میں اضافہ ہو رہا ہے،یعنی جو پہلے سے امیر ہیں وہ مزید امیر ہوتے جا رہے ہیں، لیکن نئے امیروں کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں ہو رہا ہے،اس کا اثر براہ راست بازار پر پڑ رہا ہے، کمپنیاں اب سستی مصنوعات بنانے کے بجائے مہنگے اور پریمیم پروڈکٹس بنانے پر زور دے رہی ہیں،مثلا لگزری اپارٹمنٹس کی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے اور سستے وقابل استطاعت گھروں کی حصہ داری گزشتہ پانچ سالوں میں 40 فیصد سے کم ہو کر صرف 18 فیصد رہ گئی ہے،قیمتی اسمارٹ فون تو تیزی سے فروخت ہو رہے ہیں لیکن سستے ماڈل کے خریدار کم ہو گئے ہیں کولڈ پلے اور ایڈیشران جیسے بین الاقوامی ستاروں کے مہنگے کنسرٹ ٹکٹ پلک جھپکتے ہی فروخت ہو جاتے ہیں،لیکن عام لوگوں کے لئے تفریح مہنگا ہوتا جا رہا ہے، بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق کووڈ 19 کے بعد ہندوستان کی معیشت کی بحالی k کی شکل کی رہی ہے یعنی امیروں کے لیے اچھے دن توآگئے لیکن غریبوں کی حالت اور خراب ہو گئی،اس کو اس طرح سمجھیئے کہ 1990 میں ہندوستان کے سر فہرست 10 فیصد لوگ 34 فیصد قومی آمدنی کے مالک تھے،آج وہی 10 فیصد لوگ 57.7 قومی آمدنی کے مالک ہو گئے ہیں،ملک کے سب سے غریب 50 فیصد لوگوں کی آمدنی 22.2 فیصد سے کم ہو کر محض 15 فیصد رہ گئی ہے یعنی امیروں کے لئے دنیا اور چمکدار ہو گئی ہے،جبکہ غریبوں کے لئے حالات پہلے سے زیادہ مشکل ہو گئے ہیں،ہندوستان کا متوسط طبقہ بھی مشکلات میں پھنستا جا رہا ہے،مہنگائی میں تو اضافہ ہو رہا ہے لیکن ان کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں ہو رہا ہے، گزشتہ 10 سالوں میں ٹیکس دینے والے متوسط طبقے کی آمدنی عملی طور پر جمود کا شکار رہی ہے،یعنی مہنگائی کے حساب سے دیکھیں تو ان کی تنخواہ نصف ہو گئی ہے،اگر آج کی بات کریں تو متوسط طبقے کی بچت گزشتہ 50 سال کی کم ترین سطح پر ہے لوگوں کی ضروریات میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہو رہا ہے”
بھارت میں ہر روز مسلسل یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ 2047 تک بھارت ترقی یافتہ ملک بن جائے گا،وزیراعظم مودی کی قیادت میں بھارتی حکومت اور بی جے پی این ڈی اے کا یہ عزم ہے اور عوام کو بھی اسی کے لیے پکارا جا رہا ہے،وزیراعظم نے بھارت کو دنیا کے لئے کارخانہ قرار دیا ہے،حالانکہ یہ جزوی سچائی لگتی ہے کیونکہ بھارت مینوفیکچرنگ پیداوار اور صنعت وغیرہ میں مسلسل پیچھے جا رہا ہے،مقصد یہ طے کیا گیا تھا کہ اس شعبے کا جی ڈی پی میں حصہ تقریبا 25 فیصد ہونا چاہیے لیکن یہ حصہ 15 فیصد سے بھی کم ہو گیا ہے یہ وہ شعبہ ہے جس میں روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہوتے ہیں،دراصل بھارت مینو فیکچرنگ ہب کی بجائے ٹریڈنگ ملک بنتا جا رہا ہے،یہاں عام آدمی کی اوسط  آمدنی تقریبا 28 فیصد بڑھی ہے،جبکہ صنعت کاروں اور امیروں کی آمدنی میں 350 فیصد کا اضافہ ہوا ہے،یہ اقتصادی عدم مساوات بھارت کی اصل حقیقت ہے،اس لئے ترقی یافتہ معیشت کے بارے میں کوئی خوش فہمی نہیں ہونی چاہئے،اس وقت بھارت چار ٹریلین ڈالر کی معیشت بننے سے بہت پیچھے ہے تو پھر یہ پانچ ٹریلین ڈالر کی معیشت والا ملک کیسے بنے گا؟ویسے 30 ٹریلین ڈالر کے جھوٹے دعوے بھی کئے جا رہے ہیں،جس ملک میں 81 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو ہر ماہ مفت اناج فراہم کیا جارہا ہو اور یہ اسکیم 2029 تک جاری رہے گی،وہ ملک 2047 تک ترقی یافتہ ممالک کے گروہ میں کیسے شامل ہوسکتا ہے؟دراصل مفت خور سیاست ایک طبقے کو سست اور نکما بنا رہی ہے اور معیشت کو کھوکھلا کررہی ہے،کیونکہ بھارت میں ہنر کی کمی ہے،پیداوار میں کمی ہے،آمدنی اور خرچ کے موازنہ میں عدم توازن ہے،تویہاں کی معیشت کس طرح بڑھ سکتی ہے؟ 10 فیصد لوگوں کے ذریعے ملک کب تک چل سکتا ہے؟یہ بھارت کی داخلی حقیقت ہے،چونکہ آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہو رہا ہے یا آمدنی کے ذرائع خشک ہوتے جارہے ہیں،اس لئے اسکا اثر اوسط بچت پر بھی پڑے گا،بھارت میں بچت کے معاملے میں تقریبا 44 فیصد کمی آئی ہے،جو بچت 20/2019 میں 11 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ تھی،اب 2025 میں وہ گھٹ کر 6.52 لاکھ کروڑ روپے ہو گئی ہے،ملک میں بے روزگاری اور مہنگائی پر کوئی قابو نہیں پایا جارہا ہے،تعلیم اور صحت میں کوئی اہم ترقی نہیں ہورہی ہے،ہماری کرنسی مسلسل گرتی جا رہی ہے،آج بازار کی کشادگی کے وقت ڈالر کی قدر 87.36 روپے تھی،جوملکی تاریخ میں سب سے کم ترین سطح پر ہے،2014 میں بھاجپا کے اقتدار میں آنے سے بھارت آزادی کے بعد سے اب تک کے سب سے بدترین اورمشکل دور سے گزر رہا ہے،جون 2024 میں ملک پر 176 لاکھ کروڑ کا قرضہ تھا،اب یہ قرضہ مارچ 2025 تک بڑھ کر181 لاکھ کروڑ ہوجائے گا،ایسی صورت میں یہ کہنا درست ہے کہ نریندر مودی ہر سطح (خارجی و داخلی) پر اقتصادی و سفارتی‌ جنگ ہار چکے ہیں،جون میں اقتصادی تباہی کا جو طوفان متوقع ہے،وہ منھ سے نوالہ ہی نہیں چھینے گا تن سے کپڑے بھی اتار لے گا۔۔
آخر بھارت کے لوگوں کو جھوٹ اور فریب کے ذریعے کب تک بہلایا جائے گا؟ بھارت میں کیا ہورہاہے؟ملک میں بے روزگاری سرچڑھ کر بول رہی ہے،مہنگائی کا عفریت آسمان چھورہاہے،کرنسی زمیں بوس ہورہی ہے،فینانس منسٹر نے گذشتہ دنوں پارلیمنٹ میں کہاتھا کہ ہم مہنگائی کو کم کرنے کے لئے کام کررہے ہیں،سوال یہ ہے کہ ملک سے مہنگائی کم کرنے کےلئے کتنا وقت لگے گا؟کم مہنگائی کم ہوگی؟بے روزگاری جیسے اہم مسائل پر حکومت کب غور کرے گی؟اس طرح کے حساس اور سلگتے مسائل پر غور کرنے اور اسکے حل کےلئے حکومت کو اور کتنا وقت چاہئے؟؟؟
*(مضمون نگار،معروف صحافی اور کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)*

Related posts

ملک کے موجودہ حالات کے پیش نظر ہرمدارس میں مضبوط شوری کاہونا ضروری ہے

www.journeynews.in

حج عبادت بھی، رکن اسلام بھی اور پیغام اتحاد و مساوات بھی!!! جاوید اختر بھارتی

www.journeynews.in

تعلیم تو ضروری ہے لیکن تعلیم کا حصول اتنا دشوار کیوں ہے؟

www.journeynews.in