سرفرازاحمدقاسمی حیدرآباد
رابطہ: 8099695186
دنیا بھر میں جدید ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا نے انسانی زندگی کو جس طرح اپنی گرفت میں لے لیا ہے اس کے مثبت پہلوؤں کے ساتھ ساتھ منفی اثرات بھی بڑی تیزی سے سامنے آرہے ہیں،آج کا بچپن جو کھیل کود دوستوں کے ساتھ میل جول اور قدرتی ماحول سے جڑا ہونا چاہیے تھا وہ موبائل اسکرین میں قید ہو کررہ گیا ہے،والدین کے لئے یہ ایک نا ختم ہونے والا درد سر بن گیا ہے کہ کس طرح بچوں کو موبائل اور سوشل میڈیا کی عادت سے محفوظ رکھا جائے،ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ موبائل اور آن لائن گیمس کی لت بچوں میں جارحانہ رویہ،تنہائی پسندی،بے سکونی اور بعض اوقات جرائم کی طرف میلان پیدا کررہی ہے، کھیلوں کے میدان خالی ہو رہے ہیں اور گھر کے کمرے ورچول دنیا کے اسیر بن گئے ہیں،یہ رجحان صرف ایک خاندانی مسئلہ نہیں بلکہ ایک سماجی اور قومی مسئلہ بنتا جا رہا ہے،دنیا کے کئی ممالک کی جانب سے اس صورتحال پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے،آسٹریلیا میں 16 سال سے کم عمر کے بچوں کے سوشل میڈیا استعمال پر پابندی عائد کی جا چکی ہے،فرانس کی جانب سے بھی اسی سمت پیشرفت کی جارہی ہے،اس پس منظر میں بچوں کے مستقبل کو نظر میں رکھتے ہوئے دنیا کے کئی ممالک سوشل میڈیا کے استعمال کو محدود کرنے پر غور کررہے ہیں،ہمارے ملک بھارت میں بچوں کی آبادی زیادہ ہے،اس لئے یہاں بھی یہ یقینی بنانا نہایت ضروری ہے کہ وہ سوشل میڈیا کی لت کا شکار نہ ہوں،ایسے ماحول میں ہمارے ملک میں بھی یہ سوال شدت سے اٹھایا جارہا ہے کہ کیا بچوں کو موبائل اور سوشل میڈیا کی رسائی محدود کرنے کے لئے مؤثر قوانین اور پالیسیاں وضع کی جائیں؟ کرناٹک ہائی کورٹ نے 2023 میں واضح طور پر کہا تھا کہ اسکول کے بچے سوشل میڈیا کے عادی ہورہے ہیں اور اس کے مضر اثرات روکنے کے لئے عمر کی حد مقرر کرنا ناگزیر ہے،سپریم کورٹ نے بھی سوشل میڈیا کے بے قابو استعمال پر قابو پانے کے لئے رہنمایانہ خطوط بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے،انصاف کی بات یہ ہے کہ صرف عدالتی احکامات یا حکومتی پابندیاں کافی نہیں ہیں،اس مسئلے کا سب سے بڑا حل گھروں سے شروع ہوتا ہے،والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں پر نظر رکھیں کہ بچے موبائل پر کیا دیکھ رہے ہیں؟ کتنا وقت صرف کر رہے ہیں؟ اور کن سرگرمیوں میں مصروف ہیں؟اس سلسلے میں 36 گڑھ کے گاؤں کی مثال قابل غور ہے جہاں حال ہی میں 36 گڑھ کے گہیرا بیدی گرام پنچائیت میں یہ اصول بنایا گیا کہ اگر گاؤں کے بچے موبائل پر گیم کھیلتے ہوئے پائے گئے تو ان کے والدین پر تین ہزار روپے کا جرمانہ عائد کیا جائے گا،ساتھ ہی اطلاع دینے والے کو ایک ہزار روپے بطور انعام دیا جائے گا،اس فیصلے سے اس گاؤں میں خاصی تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے،بچوں کو موبائل کی دنیا سے نکالنے کے لئے ضروری ہے کہ انہیں فطرت کے قریب لایا جائے،خاندانوں میں میل جول،کھیل کود اور اخلاقی تربیت کی جگہ اب موبائل اسکرین نے لے لی ہے بچے فطری کھیلوں سے دور اور ڈیجیٹل قیدی بن کر رہ گئے ہیں،اس کا نتیجہ یہ ہے کہ نئی نسل حقیقی دنیا کی مشکلات کا سامنا کرنے کے بجائے ورچول دنیا میں کھوجاتی ہے،والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ وہ انہیں کھیل کے میدانوں میں لے جائیں، گھر میں رشتے،ناطے اور خاندانی قدروں سے روشناش کروائیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے ساتھ وقت گزاریں،جب تک بچوں کو حقیقی زندگی کی مصروفیات اور خوشیاں نہیں ملتی وہ ورچول دنیا کے جال میں پھنستے رہیں گے،عالمی ادارہ صحت نے پانچ برسوں سے کم عمر بچوں کے لئے اسکرین وقت کم سے کم رکھنے اور فعال کھیل ومعیاری نیند بڑھانے پر زور دیا،جبکہ امریکن اکیڈمی آف پیڈیا ٹرکس نے 18 ماہ سے کم عمر میں ویڈیو چیٹ کے علاوہ میڈیا سے پرہیز اور بڑے بچوں کے لئے واضح حدود مقرر کرنے کی سفارش کی ہے،یہ سفارشات محض اخلاقی مشورے نہیں،جسمانی،بصری اور ذہنی نمو کے تحفظ کا علمی نچوڑ ہیں،یہ مسئلہ صرف حکومت کا نہیں بلکہ ہم سب کا ہے اگر معاشرہ، والدین،تعلیمی ادارے اور حکومت سب مل کر کوشش کریں تو بچوں کو موبائل کی لت سے نجات دلائی جا سکتی ہے ورنہ آنے والی نسل ایک ایسے بحران کا شکار ہوگی جہاں تخلیقی صلاحیتیں،جسمانی صحت اور سماجی رشتے سب کچھ اسکرین کے اندھیرے میں کھو جائیں گے دنیا بھر میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ اگر بچوں کو اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا کی زنجیروں سے آزاد نہ کیا گیا تو ایک ڈیجیٹل غلام نسل وجود میں آئے گی جو ذہنی طور پر کمزور،جسمانی طور پر غیر فعال اور سماجی طور پر تنہائی کا شکار ہوگی۔
گزشتہ دنوں اخبار میں ایک ریاست سے متعلق یہ خبر شائع ہوئی کہ بہار میں 40 فیصد بچے موبائیل کی وجہ سے بیمار ہورہے ہیں،خبر کے مطابق بہار میں حقوق اطفال کے تحفظ سے متعلق کمیشن کے رکن ڈاکٹر سوگریو داس نے والدین سے اپیل کی کہ وہ اپنے بچوں کو موبائل کے مضر اثرات سے بچائیں ڈاکٹر داس نے بہار کے سمستی پور میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بہار میں بچوں کو موبائل کے بدترین اثرات کا سامنا ہے جو کہ تشویش ناک ہے،انہوں نے کہا کہ حقوق اطفال کے تحفظ سے متعلق قومی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ریاست میں 40 فیصد سے زائد بچے موبائل کے استعمال کی وجہ سے ذہنی مریض بن رہے ہیں،ڈاکٹر داس نے کہا کہ والدین کو اس بات پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ بچے موبائل کس کام کے لئے اور کہاں استعمال کر رہے ہیں”
دوسری طرف خاندانوں اور رشتے داروں میں تنازعات کی سب سے بڑی وجہ ہمیشہ سے جائیداد رہی ہے لیکن موجودہ دور میں ٹیکنالوجی نے اختلافات کی نوعیت ہی بدل دی ہے،اب صرف زمین،مکان اور کاروبار ہی نہیں بلکہ واٹس ایپ،فیس بک،انسٹاگرام کے علاوہ دیگر سوشل میڈیا پر کی جانے والی پوسٹیں بھی رشتوں میں دوریاں پیدا کررہی ہیں،حالیہ دنوں میں خاندانوں اور دوستوں کے درمیان واٹس ایپ اور ٹیلی گرام گروپس کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے،ان گروپس کا مقصد بظاہر ایک دوسرے کو باخبر رکھنا اور روابط کو مضبوط بنانا ہے لیکن یہ گروپس اختلافات کی آماجگاہ بنتے جا رہے ہیں،جب تک گروپ میں مثبت بات چیت ہوتی ہے،تعلقات خوشگوار رہتے ہیں لیکن جیسے ہی کوئی ایسی پوسٹ یا پیغام سامنے آتا ہے جو دوسروں کو ناگوار گزرے تو بحث و مباحثہ شروع ہو جاتا ہے،بعض اوقات کسی کی خاموشی کو بھی مخالفت سمجھا جاتا ہے جو مزید تنازعات کو ہوادیتا ہے کئی بار یہ معمولی اختلافات شدید جھگڑوں تک جا پہنچتے ہیں،سوشل میڈیا کا مثبت استعمال تعلقات کو بہتر بناسکتا ہے اوربے احتیاطی رشتوں کو تباہی کے دہانے تک لے جا سکتی ہے،اب صورتحال یہ ہے کہ اگر کسی کو شادی سالگرہ یا کسی اور خوشی کے موقع پر مبارکباد نہ دی جائے تو رشتے دار ناراض ہوجاتے ہیں لیکن جب بعد میں دوبارہ خوشی کے موقع پر مبارکباد دی جائے تو فون کر کے شکایت کرتے ہیں کہ پہلے کیوں یاد نہیں رکھا،ایسی چھوٹی باتیں اکثر ناراضگیوں کا سبب بن جاتی ہے اور رشتہ داروں کو وضاحت دینی پڑتی ہے، گروپ میں کسی ایک کو مبارکباد دینے کے بعد کام کے دباؤ کی وجہ سے کسی دوسرے کو مبارکباد نہیں دی گئی تو وہ ناراض ہو جاتے ہیں اور یہ کہتے پھرتے ہیں وہ دولت مند ہے اس لئے انہیں دی گئی ہم غریب ہیں اس لئے نظر انداز کردیا گیا،حال ہی میں تلنگانہ کے سوریا پیٹ کے ایک سوشل میڈیا گروپ سے تعلق رکھنے والے ایک واٹس ایپ گروپ میں ایک شخص نے پوسٹ کیا ایک دوسرے شخص نے اس کی حمایت کی اور تالیوں پر مشتمل ایموجی کے ساتھ جواب دیا، گروپ میں شامل ایک اور یعنی تیسرے شخص نے جھگڑا شروع کر دیا کہ اس کی حمایت کیوں کی؟ دیکھتے ہی دیکھتے یہ بڑا مسئلہ بن گیا اور ایک شخص کی جان چلی گئی،پڑوسی ریاست آندھرا پردیش کے ضلع گنٹور میں ایک خاندان میں رشتہ داروں نے واٹس ایپ گروپ تیار کیا،ایک شخص نے اپنی بہن کے بچے کی سالگرہ پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے پوسٹ کیا،چند دنوں بعد بھائی کے بچے کی سالگرہ پر مبارک بادی کا پوسٹ نہیں کیا جس پر گروپ میں اختلافات شروع ہو گئے،چند لوگوں نے فون کر کے ایک دوسرے سے ناراضگی کا اظہار کیا،ماہرین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے وقت سب سے زیادہ ضرورت تحمل اور برداشت کی ہے،ایسے کسی بھی پوسٹ سے گریز کرنا چاہیے جو دوسروں کے جذبات کو مجروح کریں یا رشتہ داروں میں اختلاف پیدا کریں، گروپس میں شیئر کی جانے والی پوسٹس اس نوعیت کی ہونی چاہیے کہ ہرفرد اپنے آپ کو شامل محسوس کریں،بعض اوقات معمولی سی بات بھی غلط مفہوم اختیار کر لیتی ہے،خاندانوں اور دوستوں کے گروپس میں غیر ضروری بحث کے بجائے معلوماتی اور فائدہ مند مواد کو ترجیح دی جانی چاہیے تاکہ یہ گروپس،اختلافات کے بجائے تعلقات کو مضبوط بنانے کا ذریعہ بنے،ایسے گروپس کے ایڈمن کو بھی اپنی ذمہ داری نبھانی چاہیے،اگر کوئی تنازع سر اٹھائے تو فوری مداخلت کرکے معاملے کو سلجھانا اور اختلافات کو ختم کرنا ضروری ہے،ورنہ چھوٹی سی بات بڑے جھگڑے میں بدل سکتی ہے،یہ حقیقت ہے کہ اسوقت جائیداد کے بعد خاندانوں میں اختلافات اور تنازعات کی نئی وجہ سوشل میڈیا ہے،خوشی کے موقع پر مبارکباد نہ دو تو شکایت،اگر دی جائے تو اعتراض،تعلقات کی نئی آزمائش اور کسوٹی بن گیاہے،معلوماتی اور فائدہ مند مواد کو ترجیح دیں تاکہ یہ گروپس اختلاف کے بجائے تعلقات کو مضبوط بنانے کا ذریعہ بنیں۔
یقیناً! سوشل میڈیا آج کے دور میں ایک طاقتور ذریعہ بن چکا ہے،لیکن اس کا غلط استعمال سماج میں کئی نقصانات کا سبب بن رہا ہے اور اس سے کئی طرح کے مسائل پیدا ہورہے ہیں،آج کے جدید دور میں سوشل میڈیا نے دنیا کو ایک گلوبل ولیج میں تبدیل کر دیا ہے۔فیس بک،واٹس ایپ، انسٹاگرام،ٹوئٹر اور دیگر پلیٹ فارمز کے ذریعے لوگ ایک دوسرے سے لمحوں میں جُڑ جاتے ہیں۔لیکن جہاں سوشل میڈیا نے زندگی کو آسان بنایا ہے،وہیں اس کا غلط استعمال سماج کے لئے شدید نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے،بغیر تصدیق کے خبریں وائرل کردی جاتی ہیں،جو اکثر جھوٹ یا گمراہ کن ہوتی ہیں۔یہ جھوٹی خبریں فرقہ وارانہ فساد،بد اعتمادی اور خوف و ہراس کو جنم دیتی ہیں،بعض لوگ سوشل میڈیا کا استعمال دوسروں کی کردار کشی یا مذاق اُڑانے کے لئے کرتے ہیں۔خاص طور پر نوجوان طبقہ اس کا شکار بنتا ہے،جو ان کی ذہنی صحت پر منفی اثر ڈال سکتا ہے،سوشل میڈیا پرغیر ضروری طور پر وقت گزارنا،طلباء اور کام کرنے والے افراد کی کارکردگی پر منفی اثر ڈالتا ہے۔لوگ گھنٹوں اسکرین پر لگے رہتے ہیں،جس سے ان کی تعلیمی اور پیشہ ورانہ زندگی متاثر ہوتی ہے ایسے ہی کئی بار لوگ اپنی ذاتی معلومات،تصاویر یا ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر کردیتے ہیں،جو بعد میں غلط ہاتھوں میں جا سکتی ہیں اور بلیک میلنگ یا فراڈ کا ذریعہ بن سکتی ہیں، کچھ عناصر نفرت انگیز مواد پھیلا کر مختلف برادریوں کے درمیان نفرت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں،جو سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتا ہے۔سوشل میڈیا ایک طاقتور آواز اور اہم ذریعہ ہے،لیکن اس کا استعمال سوچ سمجھ کر اور ذمہ داری کے ساتھ کرنا ضروری ہے۔ہمیں چاہیے کہ سوشل میڈیا کو علم، آگاہی اور مثبت روابط کے لیے استعمال کریں، نہ کہ نفرت، جھوٹ اور نقصان پہنچانے کے لئے۔سوشل میڈیا جہاں ایک جانب علم،معلومات اور باہمی روابط کا ذریعہ ہے،وہیں دوسری طرف یہ ارتداد(دین سے پھر جانے) جیسے سنگین فتنوں کا بھی ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔آج کا دور ٹیکنالوجی کا دور ہے اور سوشل میڈیا ہر فرد کی زندگی کا لازمی جزو بن چکا ہے۔فیس بک،یوٹیوب، انسٹاگرام، ٹک ٹاک، اور دیگر پلیٹ فارمز نے معلومات تک رسائی آسان بنا دی ہے۔لیکن افسوس کہ ان ذرائع کا استعمال صرف مثبت مقاصد کے لئے نہیں ہورہا ہے،بلکہ یہ دین اسلام کے خلاف ایک خاموش مگر خطرناک مہم کا ذریعہ بھی بن رہے ہیں، جس کے نتیجے میں ارتداد کا فتنہ بڑھتا جارہا ہے۔بہت سے یوٹیوب چینلز،فیس بک پیجز اور بلاگز ایسے افراد چلا رہے ہیں جو خود کو "فکر انگیز” یا "سوال اٹھانے والے ذہن” ظاہر کرتے ہیں، لیکن درحقیقت وہ اسلام کے بنیادی عقائد پر حملے کرتے ہیں۔نوجوان جب بغیر علم و تحقیق کے ایسے مواد کو دیکھتے ہیں تو ان کے ذہن میں دین کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔سوشل میڈیا پر ایک مخصوص سوچ کو فروغ دیا جا رہا ہے کہ مذہب انسان کی ترقی میں رکاوٹ ہے،یا مذہب صرف ایک قدیم دقیانوسی نظام ہے جو جدید دور سے ہم آہنگ نہیں۔یہ بیانیہ نوجوان نسل کو دین سے دور کررہا ہے اور آہستہ آہستہ ارتداد کی طرف لے جا رہا ہے،مغربی افکار اور دہریت پر مبنی نظریات کو "سائنس” اور "عقلی سوچ” کے نام پر پیش کیا جاتا ہے،اور دین کو ایک دقیانوسی تصور بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ایسے ویڈیوز اور تحریریں نوجوانوں میں بڑھتی جارہی ہیں،جو دین سے بے زاری اور آخرکار ارتداد پر منتج ہوتی ہیں۔زیادہ تر نوجوان سوشل میڈیا سے متاثر اس لئے ہوتے ہیں کہ ان کے پاس اسلامی عقائد کی مضبوط بنیاد موجود نہیں ہوتی۔جب ان کے عقائد پر اعتراضات کیے جاتے ہیں،تو وہ ان کا علمی جواب نہیں دے پاتے اور شکوک وشبہات میں پڑ جاتے ہیں۔سوشل میڈیا پر باقاعدہ مہم کے ذریعے علمائے دین،مدارس اور اسلامی نظام کی توہین کی جاتی ہے،جس سے عوام الناس، خاص طور پر نوجوان،دین سے بدظن ہورہے ہیں۔ان حالات سے نمٹنے کےلئے مندرجہ ذیل تجاویز پرعمل کیا جاسکتاہے۔
1. اسلامی تعلیمات کا فروغ:
والدین، اساتذہ اور دینی اداروں کو چاہیے کہ وہ بچوں اور نوجوانوں کو مضبوط عقائد اور دین کا درست فہم فراہم کریں۔
2. دینی اسکالرز کی آن لائن موجودگی:
مستند علماء کو سوشل میڈیا پر فعال ہو کرنوجوانوں کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے سوالات کا علمی انداز میں جواب دینا چاہیے۔
3. بچوں کی آن لائن سرگرمیوں پر نگرانی:
والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کی سوشل میڈیا سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور انہیں مفید،مثبت اور دینی مواد کی طرف راغب کریں۔
4. شکوک کا حل مکالمے سے:
جو نوجوان دین کے بارے میں شکوک میں مبتلا ہوں، انہیں تنقید کا نشانہ بنانے کے بجائے ان سے مکالمہ کیا جائے اور ان کی الجھنوں کا احترام سے جواب دیا جائے۔سوشل میڈیا کے ذریعے ارتداد کا فتنہ ایک سنجیدہ چیلنج بن چکا ہے،جس کا مقابلہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم علم، حکمت،برداشت،اور دین کی صحیح تعلیمات کے ساتھ نوجوان نسل کی رہنمائی کریں۔ ہمیں صرف تنقید نہیں، بلکہ تعمیری انداز میں سچائی کو پیش کرنا ہوگا،سوشل میڈیا کا مثبت استعمال اور منظم لائحہ عمل کے ذریعے سماج اور معاشرے میں بڑھتی دوریوں اور اختلاف وا انتشار سے محقوظ رکھاجاسکتاہے۔
*(مضمون نگار،معروف صحافی اور کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)*