28.8 C
Delhi
جولائی 18, 2025
مضامین

الیکشن کمیشن کی منمانی،کیا بہار پھر کسی انقلاب کے لئے تیار ہے؟

سرفرازاحمدقاسمی حیدرآباد
رابطہ : 8099695186
             گزشتہ 11 برسوں سے ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے،جس طریقے سے جمہوریت کو یرغمال بنا لیا گیا ہے اور لوگوں کو مسلسل بیوقوف بنایا جارہا ہے،اسکے بھیانک نتائج ایک ایک کرکے سامنے آنے لگے ہیں،ان دنوں بہار میں ووٹر لسٹ کے نام پر جس طریقے سے جمہوریت کا مذاق اڑایا جارہا ہے اور الیکشن کمیشن اپنی منمانی کررہا ہے،اسے دیکھ کراب ایسا لگتا نہیں ہے کہ ملک میں جمہوریت باقی رہ گئی ہے، کانگرس پارٹی کا کہنا ہے کہ بی جے پی الیکشن کمیشن کے ساتھ مل کرعوام کے حق رائے دیہی کو چھیننے کی سازش کررہی ہے لیکن اسے کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا اور بہار کے عوام اس کا منہ توڑ جواب دیں گے،کانگریس جنرل سکریٹری رندیپ سنگھ سرجے والا نے کہا کہ بہار کے 8کروڑ ووٹروں پر بی جے پی کی مسلط کردہ ووٹ بندی کی مار جمہوریت پر تالا بندی کے ساتھ ساتھ گھروں سے غیرقانونی وصولی کا ذریعہ بن گئی ہے،ووٹر ریویژن(نظر ثانی) کی آڑ میں جاری یہ فراڈ رائے دیہی کے حق کو چھیننے کی سازش اور وصولی کا  کاروبار بن چکا ہے،انہوں نے کہا کہ گھر گھر ووٹروں کی جانچ،دستاویزات کی معلومات،فارم پہنچانے اورجمع شدہ فارم کی رسیدیں دکھانے تک سب کام جعلی اورفرضی طور پر ہورہا ہے،بی جے پی کی ڈبل انجن سرکار میں ووٹ دینے کا آئینی حق بھی نیلام ہو چکا ہے،عوام کے ووٹ کا حق بھی وصولی کے بدلے بیچا جارہا ہے،مسٹر سرجے والا نے الیکشن کمیشن کو بی جے پی کی کٹھ پتلی قرار دیتے ہوئے یہ دعوی کیا کہ 14 دنوں میں بہار کے 80 فیصد یعنی چھ کروڑ سے زائد ووٹروں کے گھروں تک فارم پہنچا دئے گئے اور فارم بھی پر کر لئے گئے ہیں،یہ سب کاغذی دعوے ہیں اور کچھ نہیں،انھوں نے یہ بھی کہا کہ پورے بہار میں غیراعلانیہ ایمرجنسی جیسے حالات ہیں،عوام اپنے ووٹ کا حق بچانے کے لئے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے،انہوں نے کہا کہ جس طرح 2024 میں آئین بدلنے کی بی جے پی کی سازش کو ملک نے ناکام کر دیا،اسی طرح بہار کے کسانوں،مزدوروں،غریبوں، دلتوں اور پسماندہ طبقوں سے ووٹ دینے کا حق چھیننے کی سازش کبھی کامیاب نہیں ہوگی۔
بہار ریاستی کانگریس کمیٹی کے صدر راجیش رام نے دعوی کیا کہ بہار میں جاری ووٹر لسٹ نظر ثانی مہم کے تحت تین کروڑ سے زیادہ نام ووٹر لسٹ سے ہٹائے جائیں گے،بہار سے باہر ملازمت کے لئے کام کرنے والوں کے نام اس نظر ثانی میں ہٹا دئے جائیں گے،انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پہلے 11 منظور شدہ دستاویزات کی فہرست میں آدھار اور راشن کارڈ کو شامل نہیں کیا تھا،جس کی عظیم اتحاد نے سخت مخالفت کی تھی،کانگریس لیڈر نے الزام عائد کیا کہ بوتھ لیول آفیسر(BLO) ووٹروں کو صرف ایک ہی فارم دے رہے ہیں اور دعوی کیا کہ ہٹائے گئے ووٹروں کی تعداد کروڑوں تک پہنچ جائے گی،انہوں نے کہا کہ بہار سے تقریبا دو کروڑ،رجسٹرڈ مہاجر مزدور ریاست سے باہر کام کر رہے ہیں،اس طرح ایک کروڑ سے زیادہ غیر رجسٹرڈ ورکرز ہیں،ان میں سے بہت سے لوگوں کو ووٹر لسٹ سے نکال دیا جائے گا،نظر ثانی کے بعد حتمی ووٹر لسٹ سے تین کروڑ سے زیادہ ناموں کو ہٹایا جا سکتا ہے۔
بہار میں الیکشن کمیشن نے ووٹر لسٹ نظر ثانی کے لئے گھر گھرجا کر تصدیق کا عمل 25 جون سے شروع کیا ہے اور یہ عمل 25 جولائی تک جاری رہے گا،جیسے جیسے ووٹر لسٹ نظر ثانی خصوصی مہم کی آخری تاریخ قریب آرہی ہے،بہار کے بہت سے مہاجرین کو اپنے حق رائے دہی سےمحروم ہونے کا ڈر ستا رہا ہے،خاص طور پر بہار سے باہر رہنے والے مزدوروں کو ڈر ہے کہ اگر وہ اس بار ووٹر کا فارم نہیں بھر سکے تو ان کا حق رائے دہی ختم ہو جائے گا،ووٹرز خصوصی نظر ثانی مہم کی آخری تاریخ 25 جولائی مقرر کی گئی ہے،ریاست بھر میں اساتذہ اور سرکاری ملازمین کے ساتھ ساتھ افسران دن رات اس کام میں لگے ہوئے ہیں لیکن بہار کے مزدور لوگوں کی پرواہ کسے ہے؟
جمہوریت کا پہلا اور سب سے مضبوط ستون آزادانہ،شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات ہوتے ہیں لیکن جب انہی انتخابات کی بنیاد یعنی ووٹر لسٹ پر شکوک و شبہات کے بادل منڈانے لگیں تو نہ صرف سیاسی اعتبار سے بلکہ آئینی طور پر بھی یہ صورتحال تشویش ناک بن جاتی ہے،بہار میں اس وقت کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے،جہاں الیکشن کمیشن کے دعوے کے مطابق جاریہ ووٹر لسٹ پر نظر ثانی مہم کے دوران نیپال،بنگال اور میانمار کے شہریوں کی بڑی تعداد کے نام ووٹر لسٹ میں درج پائے گئے ہیں اگر محض اس دعوے کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو یہ مہم جمہوریت کےلئے ایک قابل تحسین اقدام معلوم ہوتی ہے،بیرونی شہریوں کے نام اگر ووٹر لسٹ میں شامل ہیں تو انہیں خارج کرنا آئینی تقاضا بھی ہے اور جمہوریت کے مفاد میں بھی ہے۔ لیکن جب حقائق پر نظر ڈالیں تو صورتحال کچھ اور نظر آتی ہے خود بہار کے صحافیوں اور زمینی رپورٹس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بیشتر فارم خالی ہے،محض(BLO) کے دستخط کی بنیاد پر اپلوڈنگ کا عمل جاری ہے،ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس بڑی تعداد کی بنیاد کیا ہے؟ اور اگر یہ بنیاد اتنی ہی کمزور ہے تو پھر اس دعوے کے پیچھے ارادے کس تک شفاف سمجھے جا سکتے ہیں؟
 بہار میں اسمبلی انتخابات قریب ہیں اور ایسے میں اچانک ووٹر لسٹ پر خصوصی نظر ثانی مہم کا آغاز بذات خود شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے اگر واقعی یہ عمل غیر جانبدارانہ ہے تو پھر اسے ملک گیر سطح پر کب اور کس وقت لاگو کیا جائے گا ؟ اس کی وضاحت کیوں نہیں جارہی ہے؟ ستم ظریفی دیکھئے کہ اس مہم کا دائرہ اب دیگر ریاستوں تک بھی بڑھانے بات ہو رہی ہے،سب سے پہلے تو الیکشن کمیشن کی جانب سے یہ بات نہیں بتائی گئی کہ کتنے افراد کو دیگر ممالک کا شہری قرار دیا گیا؟ کیا اسکی وضاحت الیکشن کمیشن کی ذمہ داری نہیں ہے؟ جب ان افراد کے پاس آدھار کارڈ ووٹر کارڈ اور راشن کارڈ جیسے دستاویزات موجود ہیں تو کس بنیاد پر انہیں غیر ملکی قرار دیا جاسکتا ہے؟ بہار کی نیپال کے ساتھ سرحدطویل اور کھلی ہوئی ہے ایسے میں یہ دعوی کہ بڑی تعداد میں لوگ دیگر ممالک سے وابستہ ہیں مبالغہ آمیز نہیں تو اورکیا ہے؟ 28 جولائی کو اس معاملے پر سپریم کورٹ میں سماعت مقرر ہے اور21 جولائی تک کمیشن کو حلف نامہ پیش کرنا ہے،ایسے میں اپوزیشن کا کہنا ہے کہ یہ عدلیہ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے کیونکہ پی ٹی آئی نے یہ رپورٹ الیکشن کمیشن کے ذرائع کے حوالے سے جاری کی ہے،سپریم کورٹ نے بجا طور پر الیکشن کمیشن سے سوال کیا  کہ یہ کاروائی انتخابات سے محض چند ماہ قبل کیوں؟ جبکہ آئینی اداروں کا فرض ہے کہ وہ اپنے اقدامات میں شفافیت اور غیر جانبداری کا بھرپور خیال رکھیں تاکہ کسی بھی قسم کے سیاسی فائدے یا نقصان کا تاثر نہ ابھرے،اپوزیشن کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات کو یکسرنظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جب دلت، مہاجر،مزدور اور اقلیتی طبقات کے لوگوں کے پاس آدھار کارڈ راشن کارڈ اور ووٹر کارڈ موجود ہو تو صرف ان کی شناخت یا ان کے سیاسی رجحان کی بنیاد پر ان کے حق رائے دہی پر سوال اٹھانا کسی بھی جمہوری نظام کے لئے خطرناک مثال قائم کرتا ہے،اپوزیشن کی اس بات میں وزن ہے کہ کہیں یہ کاروائی مخصوص ووٹ بینک کو کمزور کرنے کی دانستہ کوشش تو نہیں؟ اور کیا یہ نوٹ بندی کے بعد اب ووٹ بندی کی ایک اور شکل تو نہیں؟ اصل خطرہ اس بات میں پوشیدہ ہے کہ ایسے متنازعہ اقدامات کا براہ راست اثر عوام کے جمہوری حقوق اور آئین کی روح پر پڑتا ہے اگر قانونی اور جائز ووٹرز بھی اپنی شناخت کے باوجود ووٹر لسٹ سے باہر کردئے جائیں تو آنے والے انتخابات کی ساکھ اور نتائج دونوں پر سوال اٹھنا فطری ہوگا۔
سال 2019 میں وزیر داخلہ امت شاہ نے صاف لفظوں میں اعلان کیا تھا کہ پہلے شہریت ترمیمی قانون(CAA) لایا جائے گا،اس کے بعد ملک گیر سطح پر نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس(NRC) کا نفاذ عمل میں آئے گا،ان کا بیان ایک باقاعدہ حکمت عملی کی پیش بندی تھی،بہار میں چو کچھ ہورہاہے،سب اسی تناظر میں ہے،ووٹر لسٹ کی غیرمعمولی نظرثانی معاملے کی مزید سماعت سپریم کورٹ میں 28 جولائی کو ہونے والی ہے،اس سے قبل کمیشن کی غیر معمولی حرکت اور فارم بھرنے کے عمل کو جلد از جلد مکمل کرنے کی تگ و دو ایک سنگین تشویش کو جنم دیتی ہے،الیکشن کمیشن کی جانب سے دعوی کیا گیا ہے کہ اب تک 80 فیصد فارم بھرے جا چکے ہیں اور 30 ستمبر تک حتمی ووٹر لسٹ تیار کرلی جائے گی یہ سوال اہم ہے کہ جب سپریم کورٹ نے ابھی حتمی فیصلہ نہیں دیا اور 10 جولائی کو اپنی سماعت کے دوران انتخابی کمیشن کی نیت و صلاحیت پر اہم سوالات بھی اٹھائے تو یہ عجلت آخر کس بات کا پتہ دیتی ہے؟کمیشن اتنی جلد بازی میں کیوں ہے؟دوسرے معاملے میں الیکشن کمیشن اسطرح کی عجلت کیوں نہیں دکھاتا؟ کیا الیکشن کمیشن ملک کے دیگر اداروں کی طرح پورے طریقے سے یرغمال بنالیا گیاہے؟
عدالت نے مقدمے کی سماعت کےدوران تین بنیادی نکات کی وضاحت مانگی کہ کمیشن کے پاس ووٹر لسٹ میں ترمیم کا اختیار کیا ہے؟ یہ اختیار کس حد تک استعمال کیا جا سکتا ہے؟ اور یہ عمل کس مدت میں مکمل ہونا چاہیے؟ ان اہم سوالات کے جواب سے پہلے ہی بوتھ لیول افسران کے ذریعے بنگلہ دیشی،نیپالی اور روہنگیا جیسے الفاظ کا استعمال اور ان پر مبنی فہرست سازی کا آغاز بنیادی انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے،صرف بہار میں تین کروڑ ووٹرس کے اخراج کا اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے،جن میں سے ایک کروڑ وہ مہاجر، مزدور،جو دہلی،ممبئی،احمد آباد،بھوپال اور بنگلور کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں،آج اپنی ہی ریاست میں مشکوک بنا دئے گئے،بہار میں یہ تمام سرگرمیاں جاری ہیں لیکن اسی کے ساتھ ساتھ مغربی بنگال میں بھی اسی نوعیت کے اقدامات کی تیاری ہورہی ہے،ریاستی چیف الیکٹورل آفس نے بوتھ لیول آفس افسران کی تقرری کا عمل شروع کردیا ہے،تربیت دی جا رہی ہے اور وسط اگست یا آخر تک ووٹر لسٹ کی گہری نظر ثانی(SiR) کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کا امکان ہے،اگرچہ ابھی نوٹیفکیشن سامنے نہیں آیا ہے لیکن دہلی میں کمیشن کی چوکسی بتاتی ہے کہ فیصلہ اورمنصوبہ پہلے ہی کرلیا گیا ہے۔یاد رہے کہ مغربی بنگال میں آخری (SIR) دو دہائیاں پہلے یعنی 2002 میں ہوا تھا،ابھی اسے ایک ایسے وقت پر لاگو کیا جارہا ہے،جب مرکز کی بی جے پی حکومت بنگال میں اپنی سیاسی موجودگی کو مضبوط کرنا چاہتی ہے،کمیشن کی دستاویزی فہرست پر بنگال کی حکمراں جماعت ترنمول کانگریس نے شدید اعتراضات کئے ہیں اور مطالبہ کیا ہے کہ 2024 تک کے کسی بھی ووٹر کا اندراج یا اخراج نہ کیا جائے،سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ اس عمل کے ذریعے ایک طویل المدتی منصوبہ روبہ عمل لایا جا رہا ہے،پہلے ووٹر لسٹ کی نظر ثانی پھر مردم شماری،اس کے بعد اقلیتوں، قبائلیوں اور پسماندہ طبقات کو غیر ملکی،درانداز قرار دے کر ملک سے بے دخل کرنے کی راہ ہموار کی جائے گی،اگرچہ اس پوری مشق کو تکنیکی،آئینی اور عدالتی پردے میں لپیٹ دیا گیا ہے لیکن اس کے سیاسی مضمرات ناقابل تردید ہیں، کیا واقعی یہ پورا عمل ایک سائنس آف ایکسکلوزن یعنی اخراج کی سائنس کا حصہ ہے،جہاں شہریت کی آڑ میں سیاسی مفادات کا کھیل کھیلا جا رہا ہے؟
سپریم کورٹ میں اس معاملے کی اگلی سماعت 28 جولائی کو متوقع ہے کروڑوں ووٹرز خاص طور پر وہ لوگ جن کے پاس زمین،تعلیم یا اعلی سطح کی دستاویزات نہیں ہیں وہ عدالت عظمی کی طرف دیکھ رہے ہیں یہ فیصلہ نہ صرف ان کی شہریت بلکہ ان کی شناخت،وجود اور جمہوری حق رائے دہی کا فیصلہ ہوگا،ایک جمہوری ملک میں انتخابی عمل کی غیر جانبداری پر اگر عوام کا یقین متزلزل ہوجائے تو صرف ووٹ کی طاقت نہیں جاتی پورا آئینی توازن بگڑجاتا ہے،لہذا الیکشن کمیشن جیسے ادارے سے یہ توقع بجا ہے کہ وہ اپنی غیرجانبداری اور آئینی دیانت داری کو قائم رکھتے ہوئے،سیاسی آقاؤں کے بجائے عوام کے حق میں فیصلہ کرے۔بصورت دیگر تاریخ صرف شہریت کا تعین نہیں کرے گی بلکہ بے حسی اور اس استبداد کے ان ایام کو بھی یاد رکھے گی جن میں رائے دہندگان کو اپنی ہی زمین پر بے وطن بنا دیا گیا ۔
 ملک کے جمہوری ڈھانچے میں انتخابات محض طاقت کے حصول کا ذریعہ نہیں بلکہ عوامی اختیار کے اظہار کا مقدس موقع ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہر ووٹ کی اہمیت غیر معمولی ہے لیکن جب انتخابی عمل ہی سوالیہ نشان کے گھیرے میں آجائے،جب ووٹر لسٹ کی تصحیح کے نام پر شہریوں کی شہریت مشکوک بننے لگے،جب سپریم کورٹ کی ہدایات کو نظرانداز کر کے انتخابی ادارے سیاسی بیانیوں کے ہم قدم ہو جائیں تو یہ جمہوریت کی بنیادوں کو ہلا دینے والی بات ہے۔
ایسے میں انتخابات محض جیتنے ہارنے کا کھیل بن کر رہ جائیں گے،جمہوریت کی سچائی اور عوام کا اعتماد متاثر ہوگا کیونکہ الیکشن کمیشن کا فریضہ صرف ووٹر لسٹ پر نظر ثانی ہی نہیں بلکہ جمہوری اعتماد کی حفاظت بھی ہے بہار کا معاملہ آئندہ دنوں جمہوریت کے لئے کسوٹی ثابت ہوگا اگر یہ کارروائی واقعی شفاف اور غیر سیاسی ہے تو اسے مکمل اعداد و شمار اور شواہد کے ساتھ عوام کے سامنے لایا جائے تاکہ کسی بھی جانب شک کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے ورنہ اس پورے عمل کو آنے والی نسلیں ووٹ کی سیاست کا ایک سیاہ باب تصور کریں گے،اپوزیشن پارٹیاں اس دھاندلی اور منمانی پر گہری نظر رکھیں،الیکشن کمیشن اگر اپوزیشن کے اعتراضات کو خاطر میں نہیں لاتاہے تو ساری اپوزیشن پارٹیوں کو الیکشن لڑنے سے انکار کردینا چاہئے اور پھر ملک گیر تحریک چلاکر انقلاب کی راہ ہموار کرنی چاہئے،ایک ایسا انقلاب جو ملک کی ضرورت ہے،بہار چونکہ انقلاب کی سرزمین رہی ہے،مختلف انقلابی تحریکوں کا وجود اسی سرزمین سے ہوا،چاہے وہ بابو کنور سنگھ کی تحریک ہو جنہوں نے 1857 میں انگریزوں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا۔یا نیل بغاوت ہو جس میں کسانوں نے یورپی نیل کاشتکاروں کے خلاف 1859/60 میں بغاوت کی جو چمپارن کے علاقے میں زبردستی نیل اگواتے تھے۔یہ تحریک کسانوں کے استحصال کے خلاف ایک اہم مزاحمت تھی یا پھر 1917 میں مہاتما گاندھی کی ستیہ گرہ تحریک ہو،یہ گاندھی جی کی پہلی عوامی تحریک تھی جو بہار(چمپارن) میں شروع ہوئی۔اس تحریک کا مقصد نیل کے کسانوں کو انگریزوں کے استحصال سے نجات دلانا تھا۔یہ ہندوستان میں ستیہ گرہ (عدم تشدد پر مبنی مزاحمت) کی پہلی کامیاب کوشش تھی یا پھر اسکے علاوہ 1930  کی کسان سبھا تحریک ہو جس میں کسانوں نے زمین داروں کے خلاف جدوجہد شروع کی، جس کی قیادت سوامی سہجانند سرسوتی نے کی۔یہ تحریک کسانوں کے حقوق اور زرعی اصلاحات کے لیے تھی،اسی طرح جے پرکاش نارائن کی”سوشلسٹ تحریک” 1974 میں بہار سے شروع ہونے والی یہ تحریک اندرا گاندھی کی حکومت کے خلاف تھی،جو بعد میں ملک گیر تحریک بن گئی اور ایمرجنسی (1975–77) کا پیش خیمہ بنی۔اس تحریک کا نعرہ "سوشلسٹ انقلاب” اور "ٹوٹل ریوولیوشن” تھا اسطرح بہار سے جن بڑی تحریکوں نے جنم لیا وہ کچھ اسطرح ہے۔
1857 کی بغاوت 1857 کنور سنگھ،آزادی کےلئے
نیل بغاوت 1859 مقامی کسان،معاشی آزادی کےلئے
چمپارن ستیہ گرہ 1917 گاندھی جی، کسانوں کے تحفظ کےلئے
کسان تحریک1930 سوامی سہجا نند، زرعی اصلاحات کےلئے
کل انقلاب 1974جے پرکاش نارائن سیاسی اصلاحات کےلئے
کیا آج بہار ایک بار پھر کسی نئے انقلاب کی قیادت کے لئے تیار ہے؟ یہ سوال موجودہ حالات میں بہت اہم ہے۔
*(مضمون نگار،معروف صحافی اور کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)*

Related posts

دہلی اسمبلی الیکشن و نتائج سیکولر پارٹیوں کے لئے سبق آموز! تحریر: جاوید اختر بھارتی 

www.journeynews.in

سدا رہے سلامت جمہوریت ہندوستان کی! جاوید اختر بھارتی

www.journeynews.in

کس کو بتاؤں حال دل بے قرار کا!!

www.journeynews.in