ہندوستان میں اردو زبان کو زندہ رکھنے والا سب سے مؤثر ذریعہ ہزاروں کی تعداد میں پھیلے ہوئے دینی اسلامی مدارس ہیں ،، جو بالخصوص مسلمانوں میں اردو زبان کو باقی رکھنے کے ہر ممکن ذرائع تحریر و تقریر ، درس و تدریس نیز کتب ورسائل فراہم کرتے ہیں ،، اور دوسرا اردو زبان کے فروغ کا غیر ارادی ذریعہ ہندوستانی فلمیں ہیں جو بنام ہندی ملک و بیرون ملک قبول عام کا درجہ رکھتی ہیں تمام ہندوستانی فلموں میں آسان اردو ہی استعمال کی جاتی ہے اور سنسکرت نما ہندی سے انہیں دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا اور چند خطوں و علاقوں کو چھوڑ کر ان فلموں کو آل انڈیا پیمانے پر دیکھا اور سمجھا جاتا ہے جو اردو زبان کی مقبولیت کا عام ثبوت ہے اس کے باوجود بھی اگر اہل تعصب صرف مسلمانوں کی زبان کہتے ہیں ،، ایسی صورت میں تو ان کے دماغوں کا فتور ہی کہا جائے گا۔
1989 کے آخر میں اردو زبان کو اترپردیش کی دوسری سرکاری ڑزبان کا درجہ دئیے جانے کا اعلان سابق وزیراعظم نے کیا ،، اس پر رائے زنی اور تبصرہ فضول ہے کہ مسلمانوں کی کہی جانے والی زبان کے ساتھ یہ دریا دلی الیکشنی حربوں میں سے ایک حربہ تھا ،، یا کچھ اور ،، لیکن ہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ اس اعلان کی وجہ سے بدایوں کا علاقہ خون سے لالہ زار کردیاگیا ،، اس وقت بہت سے لوگوں نے کہا تھا کہ اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی نہیں کہا جاسکتا ہے کہ معشوقہء اردو کو ان قیمتی جانوں کی قربانی دینے کے بعد بھی درحقیقت پنپنے کا موقع دیا جائے گا کہ نہیں ؟
اترپردیش کے علاوہ اور کئی صوبوں میں اردو نوازی کے اعلانات ہوئے تھے اور آج بھی بسااوقات کچھ سیاسی رہنمائوں کی طرف سے اردو زبان کے فروغ کی بات ہوتی ہیں اب تو یہ آنے والا وقت ہی بتلائے گا کہ مادر وطن کی اس زبان کے نام پر مسلمانان ہند کا ذائقہ مزاج تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے یا حقداروں کو حق دے کر ادائے فرض کیا جارہاہے ۔
اردو زبان کسی ایک مذہب کی زبان نہیں ہے بلکہ اس ملک میں جیسے ہندی زبان ویسے ہی اردو زبان ہے بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستان کی زبانوں میں ہندی و اردو سگی بہنیں ہیں ، ہندی اور اردو ملک کی دو آنکھیں ہیں ، دو ہاتھ ہیں ایک دل ہے تو دوسری اس کی دھڑکن ہے اور اردو زبان کا دائرہ بڑا وسیع ہے اس کے شامیانے میں بڑی کشادگی ہے اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ایک انگریز داں انگریزی میں تقریر کرے اور درمیان میں اردو کا جملہ استعمال کرے تو معاملہ بالکل عجیب سا محسوس ہوگا لیکن ایک زبردست مقرر اپنی اردو زبان کی تقریر میں بیچ بیچ میں انگریزی کا جملہ استعمال کرتا ہے تو اس کی تقریر میں جہاں نکھار آتا ہے وہیں اردو زبان کے صدقے میں انگریزی کا قد اونچا ہوتا ہے اور مقرر کی بھی تعریف ہوتی ہے وہ اس لئے کہ اردو کی تقریر میں انگریزی کے جملے کے استعمال سے معاملہ الگ الگ نہیں ہوا کیونکہ اردو زبان نے انگریزی جملے کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا جیسے ایک کلو دودھ میں سو گرام پانی ملادینے سے معاملہ جدا نہیں ہوا اسی طرح اردو کی چاشنی اور مٹھاس میں انگریزی کا جملہ بھی میٹھا ہوگیا اس سے معلوم ہوا کہ اردو زبان کا دامن تنگ نہیں بلکہ بہت وسیع ہے۔
یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ کچھ لوگوں کو اردو زبان نہیں بھاتی اور وہ دو سگی بہنوں میں سے ایک کو ہندو اور دوسری کو مسلمان سمجھنے لگے اسی طرح اردو اور ہندی اخباروں کو ایسی پہچان دیتے ہیں کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دو سگے بھائیوں میں سے ایک ہندو اور دوسرا مسلمان ہوگیا ۔
ایک زمانہ تھا جب اردو کی تعمیر و ترقی کے لئے بڑے بڑے اسٹیج لگائے جاتے تھے مشاعروں کا انعقاد ہوتا تھا ہندوستان کے مشہور ناظم مشاعرہ عمر قریشی گورکھپوری جب شعراء کرام کا تعارف کرانے کے لئے مائک کے سامنے کھڑے ہوتے اور جب تعارف کرانا شروع کرتے مجمع میں موجود ہر شخص کی گردن اوپر ہوتی ان کا انداز ہی نرالا تھا جس شاعر کا تعارف کراتے گویا تصورات کی دنیا میں کھو کر سامعین کو اس شاعر کے علاقے اور گاؤں میں پہنچاتے جب سفر کا نقشہ کھینچتے تو سننے والے کو یوں محسوس ہوتا کہ وہ خود سفر کررہاہے عمر قریشی جہاں بہت ساری باتیں کرتے وہیں ایک بات ضرور کہتے کہ یہ مشاعرہ اور میری بات دونوں کا صرف ایک مقصد ہے کہ اردو زبان کو فروغ حاصل ہو اردو زبان کا بول بالا ہو اس لئے آپ مشاعروں کو صرف سیر وتفریح کا سامان نہ سمجھیں اور تجارت و کمائی کا ذریعہ نہ بنائیں ۔
+++++++++++++++++++++++++++++
جاوید اختر بھارتی سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی