نئی دہلی 6؍ستمبر 2025 :ٹی وی نیوز ایجنسی اے این آئی کے حوالے سے بعض اخبارات میں یہ خبر شائع کی گئی ہے کہ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعدمدنی نے اپنے انٹرویو میں کہا ہے کہ ’’گیان واپی مسجد یا متھرا کے سلسلے میں دونوں کمیونٹی کے لوگ آپس میں بیٹھ کر بات کریں۔‘‘
یہ خبر سراسر بے بنیاد اور غلط ہے۔
مولانا مدنی نے اپنے پورے انٹرویو میں نہ تو ایسا کوئی بیان دیا ہے اور نہ ہی اس تعلق سے کوئی سوال یا جواب آیا ہے۔ مولانا مدنی نے دوران انٹرویو ایک سوال میں جواب میں آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت جی کی طرف سے دو کمیونیٹیوں کے مابین اچھے اور خوشگوار روابط اور باہمی رشتوں کو استوار کرنےکےلیے ڈائیلاگ سے متعلق کسی بھی پیش رفت کی تحسین کی ہے۔ مولانا مدنی نے اس تناظر میں ۲۰۲۳ء میں منعقد جمعیۃ علماء ہند کے ۳۴ ویں اجلاس عام کے خطبہ صدارت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہماری جماعت نے اس سے متعلق پہلے ہی تجویز منظوری کی تھی جس میں باہمی گفت و شنید کو ہی تمام مسائل کا حل بتایا تھا اور آرایس ایس کے سرسنگھ چالک اور ان کے متبعین کو گرم جوشی کے ساتھ دعوت دی گئی تھی کہ آئیے آپسی بھید بھاؤ اور بغض و عناد کو بھول کر ایک دوسرے کو گلے لگائیں ۔
مولانا مدنی نے کہا کہ جہاں تک مسجدوں کا معاملہ ہے تو اصل حقیقت یہ ہے کہ گیان واپی اور متھرا وغیرہ جیسے معاملات میں فیصلہ کن اختیار متعلقہ مسجد کمیٹیوں کا ہے، جو ان مقدمات میں شرعی اور قانونی طور پر فریق ہیں اور وہ شرعی حد میں رہتے ہوئے کسی سے ڈائیلاگ کا حق رکھتے ہیں ۔جہاں تک متھرا کے معاملے کا تعلق ہے، وہاں 1968 میں باضابطہ طور پر عدالت کی نگرانی میں شاہی عیدگاہ کمیٹی اور شری کرشنا جنم استھان سیوا سنگھ کے درمیان تصفیہ پر مبنی معاہدہ ہوچکا ہے۔ اس لیے وہاں کوئی حقیقی تنازع نہیں ہےاور ہونا بھی نہیں چاہیے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔