سیاست صرف نعروں یا تقریروں سے نہیں بلکہ حکمت، منصوبہ بندی اور اجتماعی شعور کے ذریعے بدلتی ہے
شمس آغاز
ایڈیٹر،دی کوریج
9716518126
shamsaghzrs@gmail.com
بہار کی سیاست کو سمجھنے کے لیے اگر کسی ایک زاویے کو بنیاد بنایا جائے تو وہ ذات اور
برادری کا اثر و رسوخ ہے۔ یہاں کے سیاسی منظرنامے پر نظریات کی روشنی سے زیادہ سماجی
توازن کا سایہ گہرا نظر آتا ہے۔ انتخابی مہمات ہوں یا امیدواروں کی نامزدگیاں، ہر فیصلہ اسی
پیمانے پر پرکھا جاتا ہے کہ کس برادری کی تعداد کتنی ہے اور وہ کس کے ساتھ جا سکتی ہے۔ یہ
وہ ریاست ہے جہاں نظریے یا کارکردگی سے زیادہ شناخت اور وابستگی ووٹ کے فیصلے طے
کرتی ہے۔ ایسے ماحول میں مسلمان ایک بڑی مگر منتشر سیاسی قوت کے طور پر موجود ہیں —
ایک ایسی قوت جو ہر انتخاب میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے کے باوجود اپنے اثر سے بےخبر
دکھائی دیتی ہے۔
ریاست کی سیاست میں مسلمان ہمیشہ ایک معتبر ووٹ بینک رہے ہیں۔ کئی حلقوں میں ان کی
آبادی کا تناسب نتائج بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مگر یہ تلخ حقیقت بھی کم اہم نہیں کہ ان کے
ووٹ کی تقسیم اکثر انہی کے مفاد کے خلاف جاتی ہے۔ مختلف جماعتیں ان کے ووٹ کو اپنے حق
میں یقینی سمجھ کر چلتی ہیں، مگر ان کی قیادت میں مسلمانوں کی حقیقی ترجیحات اور مسائل کم
ہی جگہ پاتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بہار کے مسلمان ابھی تک کوئی مربوط
سیاسی حکمتِ عملی اختیار نہیں کر سکے، نہ ہی کسی ایک نظریے پر اجتماعی طور پر متفق ہو
پائے ہیں۔
بہار کی ایک بڑی جماعت نے ہمیشہ خود کو اقلیتوں کے محافظ کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس کی
سیاسی بنیاد ایک مخصوص برادری اور مسلمانوں کے اتحاد پر قائم ہے۔ نظریاتی طور پر یہ
جماعت سماجی انصاف اور پسماندہ طبقوں کے حقوق کی علمبردار رہی ہے، مگر عملی سیاست
میں ذات کی دیواروں نے اس کے نعروں کو بےاثر کر دیا۔ وہ برادری جس نے اس جماعت کو
سیاسی طاقت دی، اب اپنے مفاد کے مطابق فیصلہ کرتی ہے۔ اگر امیدوار اس کے طبقے سے نہ ہو
تو ووٹ کسی اور سمت چلا جاتا ہے۔ اس کے برعکس مسلم ووٹر نے ہمیشہ نظریے اور وعدے
کو اہمیت دی، ذات یا برادری کو نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر بار دل سے ووٹ دیتے ہیں مگر
حساب کے لحاظ سے کمزور پڑ جاتے ہیں۔
ایک دوسری بڑی جماعت، جو قومی سطح پر سیکولرزم اور سماجی برابری کی دعوے دار ہے،
ریاست میں مسلمانوں کے ووٹوں سے سب سے زیادہ مستفید رہی ہے۔ اس کے رہنما اقلیتوں کے
حقوق کے علمبردار سمجھے گئے، مگر جب اقتدار میں آئے تو مسلم مسائل کے لیے ان کی آواز
مدھم پڑ گئی۔ روزگار، تعلیم، نمائندگی، سلامتی اور انصاف جیسے بنیادی سوال پس منظر میں
چلے گئے۔ اس کے باوجود مسلمانوں نے کئی دہائیوں تک اس جماعت پر اعتماد رکھا، کیونکہ
انہیں یقین تھا کہ کم از کم یہ جماعت نفرت کی سیاست کے خلاف دیوار بن کر کھڑی ہے۔ لیکن
وقت گزرنے کے ساتھ یہ اعتماد بھی کمزور ہوا، کیونکہ زمینی حقائق نے واضح کر دیا کہ وعدے
صرف جلسوں تک محدود تھے۔
ریاست کی تیسری بڑی جماعت کا موقف کچھ مختلف رہا ہے۔ اس کے لیے مسلم ووٹر اہم ضرور
ہیں، مگر مرکزیت ہمیشہ اس کی اپنی سماجی بنیاد کو حاصل رہی ہے۔ وہ پالیسیوں میں توازن
رکھنے کی کوشش کرتی ہے، مگر اس کی سیاست کا محور ترقی اور انتظامی استحکام ہے، نہ کہ
اقلیتوں کے حقوق۔ اس جماعت نے کبھی کھل کر اقلیتوں سے دشمنی نہیں کی، مگر انہیں ترجیح
بھی نہیں دی۔ اس کے نزدیک مسلم ووٹ ایک اضافی فائدہ تو ہیں، مگر لازمی ستون نہیں۔
دوسری طرف وہ جماعت، جس نے ملک کی سیاست میں اکثریتی شناخت کو اپنے بیانیے کا مرکز
بنایا ہے، بہار میں بھی اسی حکمتِ عملی پر قائم ہے۔ اسے مسلمانوں کے ووٹ کی ضرورت نہیں،
بلکہ اس کی کامیابی اسی میں ہے کہ مسلم ووٹ کسی ایک جگہ متحد نہ ہو سکیں۔ اسے اس مقصد
کے لیے زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی، کیونکہ مسلم ووٹ کی تقسیم خود بخود اس کے لیے سازگار
ماحول پیدا کر دیتی ہے۔ کئی چھوٹی پارٹیاں، علاقائی رہنما اور مذہبی نعرے اس تقسیم کو مزید
بڑھاتے ہیں، جس کا براہِ راست فائدہ اسی جماعت کو ہوتا ہے جسے مسلمانوں کی مخالفت سے
سیاسی توانائی ملتی ہے۔
یہ ایک دلچسپ مگر تلخ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت سیاسی طور پر جس کے خلاف ووٹ
دیتی ہے، عملی طور پر نتیجہ اسی کے حق میں جاتا ہے۔ اس کی وجہ کسی کو جتانے کی نیت
نہیں بلکہ اتحاد کی کمی اور غیر منظم سیاسی شعور ہے۔ ان کے ووٹ کا رخ ہر علاقے اور طبقے
میں مختلف ہوتا ہے ۔ کہیں مذہبی وابستگی، کہیں مقامی رشتہ داری، اور کہیں امیدوار کی ذاتی
ساکھ اثر انداز ہوتی ہے۔ نتیجتاً ووٹ تقسیم ہو جاتے ہیں اور وہ طاقت جس کے خلاف وہ کھڑے
ہوتے ہیں، مزید مضبوط ہو جاتی ہے۔
گزشتہ برسوں میں بہار میں ایک نئی سیاسی لہر اٹھی ہے جو عوامی حکمرانی اور شفاف سیاست
کے نعروں کے ساتھ سامنے آئی۔ اس لہر نے کچھ مسلمانوں کو بھی متاثر کیا، جو مایوسی کے
عالم میں کسی نئے چہرے یا نظام کی تلاش میں ہیں۔ مگر سیاسی تجربہ بتاتا ہے کہ ایسے نئے
چہرے اکثر وقتی امید بن کر ابھرتے ہیں اور جلد ہی روایتی سیاست کے دھارے میں ضم ہو جاتے
ہیں۔ جو لوگ انہیں عوامی نجات دہندہ سمجھ کر پیچھے چلتے ہیں، وہ بالآخر وہیں جا کھڑے ہوتے
ہیں جہاں سے نکلنے کی کوشش کی تھی۔اسی دوران کچھ مسلمان جذباتی نعروں والی جماعتوں
کے پیچھے جمع نظر آتے ہیں۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ اگر اپنی الگ آواز بنائی جائے تو بڑی
جماعتیں ان کی طاقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوں گی۔ مگر حقیقت میں ایسا شاذ ہی ہوتا ہے۔
ووٹوں کی مزید تقسیم ہوتی ہے اور فائدہ وہی قوت اٹھاتی ہے جس کی مخالفت مقصود تھی۔ سیاسی
بصیرت کے بجائے وقتی جوش اور شخصیت پرستی مسلمانوں کے اجتماعی فیصلوں پر حاوی ہو
جاتی ہے۔
اگر بہار کی سیاسی ساخت پر گہری نظر ڈالی جائے تو واضح ہوتا ہے کہ یہاں جمہوریت سے
زیادہ سماجی درجہ بندی کی گرفت مضبوط ہے۔ لوگ پارٹی یا منشور کے بجائے برادری دیکھ کر
ووٹ دیتے ہیں۔ نظریہ محض رسمی حیثیت رکھتا ہے۔ کوئی امیدوار چاہے ترقی کی کتنی ہی بات
کرے، اگر وہ مخالف ذات سے ہے تو اس کے لیے ووٹ دینا دشوار سمجھا جاتا ہے۔ یہی حقیقت
ریاست میں جمہوری شعور کے محدود ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
مسلمان اس نظام کے اندر اپنی جگہ تلاش کرنے کی جدوجہد میں ہیں۔ ان کی تعداد فیصلہ کن ہے،
مگر وہ کسی ایک سیاسی یا نظریاتی سمت میں منظم نہیں۔ ایک طرف وہ نفرت کی سیاست کے
خلاف دیوار بننا چاہتے ہیں، دوسری طرف اپنی داخلی کمزوریوں کے سبب متحد نہیں ہو پاتے۔
نتیجتاً وہ ہر پارٹی کے لیے اہم تو ہیں، مگر کسی کے لیے لازم نہیں۔ کوئی جماعت انہیں ترجیح
دینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی، کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ وہ بہرحال ووٹ دیں گے
کہیں نہ کہیں۔
یہ صورتِ حال صرف سیاسی نہیں بلکہ نفسیاتی بھی ہے۔ مسلم ووٹر جذباتی ہیں، وہ انصاف اور
مساوات کے نعروں سے جلد متاثر ہو جاتے ہیں۔ وہ دل سے ووٹ دیتے ہیں، دماغ سے حساب نہیں
لگاتے۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ ووٹ کی تقسیم کا انجام کس کے حق میں جائے گا۔ یہی رویہ ان کی
سیاسی قوت کو کمزور کرتا آیا ہے۔ اگر ان میں اجتماعی سوچ پیدا ہو جائے، اگر وہ اپنے ووٹ کو
اصولی بنیاد پر استعمال کریں، تو بہار کی سیاست کا رخ بدل سکتا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی بھی جماعت مسلمانوں کے ووٹ سے اس وقت تک فائدہ نہیں اٹھا
سکتی جب تک مسلمان خود اپنے مسائل کو سیاسی ترجیحات میں شامل نہ کریں۔ ان کے سامنے
سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ وہ کب تک دوسروں کے ایجنڈے پر ووٹ دیتے رہیں گے۔ انہیں طے
کرنا ہوگا کہ ان کا ووٹ کسی کے مفاد کے لیے نہیں بلکہ اپنی قوم کی بہتری کے لیے استعمال ہو۔
یہ تبھی ممکن ہے جب وہ اپنی سیاسی سمت کو شعور کے ساتھ متعین کریں ۔وقتی جوش یا شخصی
پسند کے بجائے اجتماعی مفاد کو ترجیح دیں۔
ہر انتخابی موسم میں بہار میں جلسوں کا جوش عروج پر ہوتا ہے، نعرے لگتے ہیں، وعدے کیے
جاتے ہیں۔ مگر جب نتائج آتے ہیں تو ایک بار پھر مسلم ووٹ کی تقسیم کی کہانی دہرا دی جاتی
ہے۔ کہیں کوئی امیدوار چند ہزار ووٹوں سے ہار جاتا ہے، کہیں کسی پارٹی کو معمولی فرق سے
شکست ملتی ہے، اور انجام یہ کہ وہی طاقت اقتدار میں آ جاتی ہے جس کے خلاف مہم چلائی گئی
تھی۔ یہ ایک ایسا چکر ہے جو ہر الیکشن کے بعد دہرایا جاتا ہے۔
ریاست میں حقیقی تبدیلی اسی وقت ممکن ہے جب مسلم ووٹر اپنی طاقت پہچانیں اور اسے
بکھرنے سے روکیں۔ سیاست صرف نعروں یا تقریروں سے نہیں بلکہ حکمت، منصوبہ بندی اور
اجتماعی شعور کے ذریعے بدلتی ہے۔ اگر ان کا ووٹ ایک مقصد کے تحت استعمال ہو تو وہ کسی
بھی جماعت کو اپنی شرائط پر لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن اگر یہی ووٹ مختلف سمتوں
میں بٹتے رہے تو وہ ہمیشہ دوسروں کے کھیل کا حصہ بنے رہیں گے۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ بہار کے مسلمان اپنے ماضی کے تجربات سے سبق سیکھیں۔
دیکھیں کہ کس طرح ان کے ووٹ نے بارہا انہی کے خلاف نتائج پیدا کیے۔ انہیں طے کرنا ہوگا کہ
سیاست میں اپنی جگہ عزت اور خودداری کے ساتھ کیسے بنائی جائے۔ اس کے لیے اتحاد، شعور
اور مقصدیت لازم ہیں۔ اگر وہ اپنے ووٹ کی اہمیت کو سمجھ کر اجتماعی فیصلے کریں تو وہ نہ
صرف اپنی نمائندگی مضبوط بنا سکتے ہیں بلکہ ریاست کی سیاست کا توازن بھی بدل سکتے ہیں۔
فی الحال بہار میں ذات پر مبنی سیاست غالب ہے، مگر وقت کے ساتھ یہ غلبہ کمزور ہو سکتا ہے،
بشرطیکہ ووٹر اپنی ترجیحات بدلیں۔ اگر مسلمان اصولی سیاست کی طرف لوٹ آئیں، اپنے
نمائندوں سے سوال کرنے کی روایت ڈالیں، اور ہر انتخاب میں کسی کے وعدوں کے بجائے اپنی
حقیقی ضرورتوں کو مدنظر رکھیں تو وہ ایک نئی تاریخ رقم کر سکتے ہیں۔یہ راستہ آسان نہیں،
مگر ناممکن بھی نہیں۔ جمہوریت میں طاقت ہمیشہ عوام کے پاس ہوتی ہے، بس ضرورت اس
شعور کی ہے کہ اسے کب اور کیسے استعمال کیا جائے۔ اگر بہار کے مسلمان دل کے ساتھ دماغ
سے بھی ووٹ دیں، تو وہ صرف ایک ووٹ بینک نہیں بلکہ ایک فیصلہ کن قوت بن سکتے ہیں۔
اور شاید اسی دن بہار کی سیاست ذاتوں کے دائرے سے نکل کر واقعی عوام کی سیاست بن جائے۔
