شمس آغاز
ایڈیٹر،دی کوریج
موبائل:9716518126
shamsaghazrs@gmail.com
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام انسانیت تاریخِ عالم میں سب سے زیادہ ہمہ گیر اور جامع پیغام ہے۔ انسانیت کی بقا، معاشرتی عدل، امن و سکون، مساوات اور احترامِ آدمیت کی جو روشن تعلیمات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیں وہ صرف اپنے زمانے کے لیے نہیں تھیں بلکہ قیامت تک آنے والی تمام نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کو انسان کی حیثیت سے عزت بخشی، چاہے وہ کسی نسل، رنگ، زبان یا مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے، اس لیے کسی کو کسی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں سوائے تقویٰ کے۔ یہ تعلیم انسانیت کے لئے سب سے عظیم منشور ہے، جس میں سب کو برابری اور عدل و انصاف کی بنیاد پر زندگی گزارنے کی دعوت دی گئی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور احادیث میں ہمیں بار بار یہ پیغام ملتا ہے کہ انسانیت کو آسانی پہنچائی جائے، ان کے لیے خیرخواہی کی جائے اور ان کے دکھ درد میں شریک ہوا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”یَسِّرُوا وَلَا تُعَسِّرُوا، وَبَشِّرُوا وَلَا تُنَفِّرُوا” یعنی لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرو، سختی مت کرو، خوشخبری دو اور متنفر نہ کرو۔ اس قولِ مبارک میں انسانیت کی خدمت اور ان کی مشکلات کو دور کرنے کا بہترین درس ملتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا ہر پہلو اس حقیقت کا شاہد ہے کہ آپ نے اپنی ذات سے بڑھ کر دوسروں کی بھلائی کو ترجیح دی۔
رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کو صرف عبادات کا درس نہیں دیا بلکہ معاشرتی تعلقات کی مضبوطی اور حسنِ اخلاق کی تعلیم دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کے لیے سب سے زیادہ فائدہ مند ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیماروں کی عیادت، غریبوں کی مدد، یتیموں کی پرورش اور مسکینوں کے ساتھ حسنِ سلوک کو دین کا حصہ قرار دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ”مَن لا یَرحَم لا یُرحَم” یعنی جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا اس پربھی رحم نہیں کیا جائے گا۔ یہ تعلیم صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہے کہ انسان کو انسان پر رحم کرنا چاہیے، کیونکہ یہی اصل انسانیت ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں وہ تاریخی اعلان فرمایا جو آج بھی انسانی مساوات کا سب سے بڑا منشور ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اے لوگو! تمہارا رب ایک ہے، کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں، اور نہ کسی عجمی کو عربی پر، نہ گورے کو کالے پر، نہ کالے کو گورے پر، سوائے تقویٰ کے۔” یہ وہ اعلان تھا جس نے غلامی، ذات پات اور نسل پرستی کی بنیادوں کو ہلا دیا اور پوری انسانیت کو ایک ہی سطح پر لا کھڑا کیا۔ اس اعلان کے ذریعے انسانوں کے درمیان وہ دیواریں توڑ دی گئیں جو رنگ، نسل اور زبان کی بنیاد پر صدیوں سے قائم تھیں۔
احادیث میں ہمیں پڑوسی کے حقوق پر بھی خصوصی زور ملتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایاکہ ”جبرئیل علیہ السلام مجھے مسلسل پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی تاکیدکرتے رہے، یہاں تک کہ میں نے گمان کیا کہ وہ اسے وارث بنا دیں گے۔” یہ حدیث ظاہر کرتی ہے کہ اسلام انسان کو صرف اپنی ذات کے بارے میں نہیں بلکہ اپنے اطراف میں موجود لوگوں کے بارے میں بھی جواب دہ بناتا ہے۔ چاہے پڑوسی مسلمان ہو یا غیر مسلم، اس کے حقوق برابر ہیں۔
جانوروں اور پرندوں کے ساتھ حسنِ سلوک بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں شامل ہے۔ آپ نے فرمایاکہ ”ہر جاندار پر رحم کرنے میں اجر ہے۔” یعنی اسلام صرف انسانوں تک محدود نہیں بلکہ حیوانات تک اپنے دائرہ رحمت کو پھیلاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیاسے کتے کو پانی پلانے والی عورت کو بخشش کی خوشخبری سنائی اور بلی کو قید کرکے مارنے والی عورت کو عذاب کی وعید دی۔ یہ تعلیم انسان کو یہ احساس دلاتی ہے کہ دنیا کے ہر جاندار کا حق ہے اور ان پر ظلم و زیادتی کرنے والا شخص اللہ کے نزدیک جواب دہ ہوگا۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی جان کے احترام کو بنیادی اصول قرار دیا۔ آپ نے فرمایاکہ دنیا کا فنا ہو جانا، اللہ کے نزدیک، ایک انسان کے ناحق قتل سے بھی کم تر ہے۔” یہ تعلیم اس وقت دی گئی جب دنیا میں انسانی جان کی کوئی حیثیت نہ تھی۔ قبیلوں کے درمیان معمولی باتوں پر خون کی ندیاں بہا دی جاتی تھیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔ قرآن نے بھی یہی اصول بیان کیاکہ ٗٗجس نے ایک جان کو ناحق قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔”
انسانیت کے ساتھ حسنِ سلوک کا یہ پیغام صرف مسلمانوں تک محدود نہ رہا بلکہ دیگر مذاہب کے رہنماؤں اور دنیا کی مشہور شخصیات نے بھی اس کو تسلیم کیا۔ مثلاً مشہور ہندو رہنما مہاتما گاندھی نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی انسانیت کے لیے ایک روشن مثال ہے اور آپ نے اپنے عمل سے دکھایا کہ کس طرح محبت اور امن کے ذریعے دل جیتے جا سکتے ہیں۔ جارج برنارڈ شا، جو مغربی دنیا کے بڑے مفکر تھے، انہوں نے کہا کہ اگر دنیا کو ایک ایسے رہنما کی ضرورت ہے جو مسائل کو حل کرے تو وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اسی طرح جواہر لال نہرو نے اپنی تصنیفات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق، انسان دوستی اور عدل و مساوات کی تعریف کی۔
مسلم شخصیات میں بھی بڑے علما، مفکرین اور صوفیا نے ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام انسانیت کو عام کیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کو مساوات اور اخوت کا سب سے عظیم سبق دیا ہے۔ علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں بار بار اس بات پر زور دیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام دنیا کے لیے نجات کا ذریعہ ہے۔ صوفیائے کرام نے بھی محبت اور خدمتِ خلق کے ذریعے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو زندہ رکھا۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے کہا کہ ”محبت سب کے ساتھ، عداوت کسی کے ساتھ نہیں ” یہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہے۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کی نامور شخصیات نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ مائیکل ہارٹ نے اپنی کتاب ”دی 100” میں لکھا کہ دنیا کے سب سے بااثر انسان محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ان کے نزدیک آپ وہ واحد ہستی ہیں جنہوں نے مذہبی اور دنیاوی دونوں میدانوں میں کامیابی حاصل کی۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام انسانیت کا سب سے بڑا پہلو یہ ہے کہ یہ کسی خاص طبقے یا علاقے تک محدود نہیں بلکہ آفاقی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں امن، محبت، عدل، مساوات، رحم دلی اور خدمتِ خلق کے وہ اصول ملتے ہیں جو آج بھی دنیا کو درکار ہیں۔ اگر انسانیت اس پیغام کو اپنا لے تو دنیا سے ظلم و ناانصافی ختم ہو جائے، جنگوں اور خونریزیوں کا خاتمہ ہو اور ہر طرف امن و سکون قائم ہو۔
اس دورِ جدید میں جب انسانیت مختلف مسائل میں الجھی ہوئی ہے، نسل پرستی، مذہبی انتہا پسندی، معاشرتی ناانصافی اور اقتصادی ناہمواری نے دنیا کو عدم استحکام سے دوچار کر رکھا ہے، ایسے وقت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام سب سے زیادہ قابلِ عمل اور نجات دہندہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے یہ ثابت کیا کہ اصل انسانیت یہ ہے کہ انسان دوسروں کے لیے آسانی پیدا کرے، ان کی خدمت کرے اور ان کے ساتھ عدل و انصاف سے پیش آئے۔
آخر میں کہا جا سکتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ اور آپ کی احادیث انسانیت کے لیے ایک ایسا منشور ہیں جو ہر زمانے اور ہر قوم کے لیے رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اس پیغام کو بیان کیا بلکہ اپنے عمل سے اس کی عملی مثال بھی قائم کی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ”رحمۃ للعالمین” کہا گیا۔ آپ کا پیغام وقت اور مقام کی قید سے بالاتر ہو کر پوری انسانیت کے لیے دائمی ہے۔ دنیا کے بڑے رہنما، چاہے وہ کسی بھی مذہب یا خطے سے ہوں، اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اگر انسانیت کو بچانا ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آفاقی پیغام کو اپنانا ہوگا۔۔ یہی پیغام انسانیت کی اصل روح ہے اور یہی وہ راستہ ہے جو دنیا کو امن و سکون عطا کر سکتا ہے۔ درحقیقت، سیرتِ نبوی ﷺ انسانیت کے لیے ایک مکمل اور دائمی منشور ہے، جو انسان کو عدل، مساوات، رحم، خدمتِ خلق اور
ہمدردی جیسے اعلیٰ اخلاقی اصولوں پر چلنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اگر آج کی دنیا اس منشور کو اپنا لے، تو یقینی طور پر جنگ، نفرت، طبقاتی استحصال، نسل پرستی اور ناانصافی کا خاتمہ ہو سکتا ہے، اور انسانیت حقیقی فلاح، سکون اور ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتی ہے۔ یہی سیرتِ محمدی ﷺ کی اصل روح ہے اور یہی وہ راہِ نجات ہے جو ہر دور کی انسانیت کو درکار ہے۔