شمالی ہندستان کے ہر صوبے میں موسمِ گرما کا جتنا طویل اور زور دار اثر دیکھنے کو مِل رہا ہے، ہر طرف عام و خاص امان مانگتے ہوئے۔
موسموں کے بارے میں بہت سارے نقطہ ہاے نظر موجود ہیں۔مذہبی، جغرافیائی اور سائنسی تعبیروتشریح کے بعد ہم اس نتیجے تک پہنچنے تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ مختلف موسم اور ان کی ادلا بدلی یا تبدیلی سے دنیا اور انسانوں کی یک سوئی ختم ہوتی ہے اور زندگی کی بوقلمونی قایم رہتی ہے۔قدرت نے ایک ایسا نظام قایم کر رکھا ہے کہ پورے گلوب میں الگ الگ خطوں کے الگ الگ موسم ہیں اور وہاں کے باشندے اُن موسموں کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کر کے خوش و خرم جینے کے عادی ہو چکے ہیں۔ تاریخی طور پر اعداد و شمار جمع کیجیے تو ایک بات ہمیشہ سامنے آتی ہے کہ ہر نسل اپنے زمانے میں بدلتے ہوئے موسموں کی کیفیت کو سمجھنے میں ناکام ہوتی ہے۔ اسی لیے قدرت کے نظام کے راز اور اس کے انداز کو سمجھنا مختلف علوم و فنون کا ایک دائمی حصہ رہا ہے۔
ہندستان میں مختلف موسم ہوتے ہیں، جاڑا، گرمی برسات کے علاوہ خزاں اور بہار بھی ہمارے مشہور موسم ہیں۔ نظیر اکبر آبادی نے تو اُمس کی کیفیت کو بھی اپنی نظم کا موضوع بنایا اور ثابت کیا کہ یہ بھی ایک موسمی صورتِ حال ہے۔ہندستان کے بارے میں اگرچہ ابنِ خلدون نے یہ تسلیم کیا کہ یہ معتدل موسم کا علاقہ ہے،جس کا مطلب یہ ہوا کہ سردی گرمی اپنی حد سے آگے نہیں بڑھیں گے۔ اگر افریقہ کے ممالک اور یورپ کے مُلکوں سے موازنہ کریں تو ہندستان معتدل موسم کا ہی مُلک ہے۔ اگرچہ یہاں بھی بہت سارے علاقوں میں پچاس ڈگری سے زیادہ درجۂ حرارت گرمی میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اور صفر سے نیچے غیر ہمالیائی علاقوں میں درجۂ حرارت پہنچ جاتا ہے۔ مگر عرفِ عام میں ہم اسے معتدل موسم کا ملک کہتے ہیںاور اسی لیے ہندستان کا آدمی اپنے سے ذرا گرم اور اپنے سے ذرا نرم ملک میں گزارا کر لیتا ہے۔
آئے دن اخبارات میں یہ بات شایع ہوتی رہتی ہے کہ دنیا میں موسم کا مزاج بدل رہا ہے۔ سمندر کا پانی اوپر آ رہا ہے اور قطبِ شمالی اور قطبِ جنوبی میں گلیشیر پگھل رہے ہیں۔ اوزون کی سطح میں بھی سوراخ کے بارے میں ہمیں بار بار ماحولیات کے ماہرین بیدار کرتے رہے ہیں مگران پر کبھی کسی نے کان دھرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ دو چار کانفرنسوں میں بات ہو جاتی ہے پھر ساری دنیا کی بے ڈھنگی رفتار اُسی طرح قایم رہتی ہے۔ نتائج سے بے خبری کے سبب پوری دنیا ماحولیاتی نقطۂ نظر سے بگاڑ کے دہانے پر کھڑی ہے اور اس آگ کی کشتی میں ڈوبنے کا سب انتظار کر رہے ہیں۔
نظامِ قدرت میں زمین ، پہاڑ، جنگل اور انسانی زندگی کے لیے ایک توازن کا شعور رہا ہے۔ انسان نے اپنی طاقت، خواہش اور غیر ضروری لالچ میں اس قدر اضافہ کر لیا کہ نظامِ قدرت سے توازن بٹھا کر چلنے کے بجاے اس نے اس پر حاکمانہ رویہ اپنا لیا۔ماحولیات سے ہم وار رشتے کے بجاے ہم نے ان پر اپنے فائدے اور اپنی سہولت کے ضروری اور غیر ضروری بار کچھ اس طرح سے لادے جس سے قدرت کی شیرازہ بندی داخل سے بکھراو کا شکار ہو گئی ۔ ہم گلوبل وارمنگ کی بات کرتے ہیں مگر ہرگز یہ یاد نہیں رہتا کہ انسانی زندگی نے ہی اس دنیا میں ہی جہنم کے دروازے اپنے اوپر کھول لیے ہیں۔
ماحولیات کی تاریخ اور عمومی تاریخ کا مطالعہ کیجیے تو موسموں کی میعاد تقریباً متعین مانی جاتی رہی ہے۔ آج اس پر غور کیجیے تو موسموں کی حتمی سرحدیں ٹوٹ گئی ہیں۔فروری مہینے میں اچانک کچھ اس طرح سے سردی پڑ جائے گی کہ آپ اس کا اندازہ ہی نہیں کر سکتے۔ مارچ میں موسم کو اعتدال میں رہنا تھا، ایسی گرمی پڑے گی کہ چالیس ڈگری سے زیادہ درجۂ حرارت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ برسات کے لیے یہ مانا جاتا تھا کہ آخری جون اور جولائی اس کے لیے مخصوص ہے مگر ستمبر اور کبھی کبھی تو اکتوبر میں سیلاب کی خبریں ملنے لگتی ہیں۔کبھی کبھی دسمبر کے آخر تک درست طریقے سے سردی کے آثار معلوم نہیں ہوں۔یہ تمام باتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہندستان میں موسموں کا مزاج اور ان کی حتمی حدبندی میں فرق آیا ہے۔تکنیکی طور پر اس پر غور کریں تو ایسا محسوس ہوگا کہ موسم کی میعاد میں اضافہ ہو گیا ہے۔مارچ اور اپریل یا اکتوبر ،نومبر کے اعتدال کو بھی ہم نے کھو دیا ہے اور اب ہمارے پاس گرمی ، جاڑا اور برسات کے موسم زیادہ لمبے اور بالآخر تکلیف دہ شکل میں حاصل ہوتے ہیں۔
جغرافیہ یا معلوماتِ عامہ کی پرانی کتابیں پڑھیے تو ہندستان میں دس جون کے بعد مان سون شمالی ہندستان کے علاقے میں داخل ہو جاتا ہے۔لوگوں کی یہ تیاری رہتی تھی کہ مئی اور دس دن جون کے کسی طرح کاٹ لینے ہیں، اور پھر برسات شروع ہوتے ہی موسم اور کیفیت میں نرمی آ جائے گی۔آج سے چالیس پچاس سال پہلے تک مان سون کی یہ روٹین کیفیت تھی۔ لیکن ماحولیات سے بے خبری نے ایسا بگاڑ پیدا کیا کہ سب کچھ بگڑ گیا۔اب گرمی مارچ میں ہی شروع ہو جاتی ہے اور مارچ سے لے کر جون کے اواخر تک تو اِسی آگ میں پورے شمالی ہندستان کو جھلسنا ہوتا ہے۔ پینتیس سے لے کر پینتالیس اور پچاس ڈگری درجۂ حرارت ان چار مہینوں میں جھیلنا پڑتا ہے۔ گرمی شروع ہوتے ہی بجلی کے شدید مسائل اپنے آپ پیدا ہونے لگتے ہیں۔ بڑے شہروں کی آسانیاں بعد میں دیکھیں، حقیقت یہ ہے کہ مضافات اور دور دراز کے علاقوں میں بجلی کی آنکھ مچولی سے جیتے جی لوگ مرنے کے لیے بے بس ہوتے ہیں۔اِسی گرمی کے زمانے میں ٤٤ یا ٤٥ ڈگری درجۂ حرارت میں یونی ورسٹیوں میں داخلے کے لیے نو عمر بچے قطار میں کھڑے ہوکر اپنی جان کی بازی لگانے کے لیے مجبور ہوتے ہیں۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ انسانی زندگی کوگرم موسم لازمی طور پر چاہیے۔ کسانوں سے پوچھیے کہ مٹی کو جراثیم سے پاک کرنے کے لیے یہ گرمی کس قدر کارگر ہے۔ پہلے ایسی سخت گرمی ہفتہ دس روز پڑتی تھی، کسان کھیتوں کی مٹیاں پلٹ دیتے تھے اور پھر بارش ہوتے ہی نئے طریقے سے کھیتی باڑی میں مشغول ہو جاتے تھے مگر اب اتنی طویل گرمی ہے کہ اس میں دبیر کے لفظوں میں کہیں تو : ”بھُن جاتا تھا جو گرتا تھا، دانا زمین پر” ایسے میں اس گرمی کا کسان بھی استعمال نہیں کر پاتے ہیں اور مہینوں ہمارے کھیت، سوکھنے اور بنجر رہنے کے لیے مجبور ہیں۔موسم کی مار یہ بھی ہے کہ گرمی کے بعد جب برسات شروع ہوتی ہے تو وہ بھی اب ستمبر کے اواخر اور اکتوبر تک پہنچ جاتی ہے۔ جن علاقوں میں ندیوں کا پانی یا گلیشیر کے پگھلنے سے آبی سطح میں جو اضافہ ہوتا ہے ، وہاں تو جون سے لے کر اکتوبر تک برسات اور اس کے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ اب اتنی طویل میعاد تک برسات ہوگی تو جینے کی مشکلیں لازمی طور پر پیدا ہوں گی۔
ہمارے مُلک میں ماحولیاتی توازن قایم کرنے کے لیے کوئی خاص فکر مندی کبھی نہیں رہی ہے۔ سندر لال بہو گنا، کرشن جیون بھٹ، انِل پرکاش، میدھا پاٹیکر اور انوپم مشر جیسے تھوڑے سے لوگ قوم اور حکومت کو بیدار کرنے کے لیے کوشاں رہے ہیں مگر ترقی کی رفتاراور اس کا سودا ہمارے دماغ میں کچھ اس طرح سے سمایا ہوا ہے کہ کبھی بھی ہم نے ایسے لوگوں کی باتیں نہ سُنیں اور ترقی کے معقول اور ماحولیات موافق ماڈل کے بجاے ہمیشہ استحصال اور دکھاوے کی ترقی کی طرف توجہ زیادہ رہی ہے۔دیکھتے دیکھتے پہاڑوں پر سے پیڑ کاٹ کاٹ کر انھیں ننگا کر دیا گیا۔کبھی اس کا خیال نہیں آیا کہ کل ہو کر فطرت ہم سے اس سے بڑھ کر بدلا بھی لے سکتی ہے۔ شہروں کو ہم نے کنکریٹ کا جنگل بنا دیا۔ شیر شاہ سوری کے زمانے میں سڑکوں کے کنارے پیڑ لگانے کا اصول کام کرتاتھا۔ چار سو سال کے بعد بھی ہم کو یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ کنکریٹ کی تعمیر کے ساتھ اُسی مقدار میں ہریالی کا اضافہ نہیں کیا جائے گا تو قدرت کی پھٹکار سے ہم بچ نہیں سکتے۔یورپ کے شہروں میں پیڑوں کی قطاریں دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جتنے مکانات ہیں، اس سے زیادہ تعداد میں پیڑ اور بھاری بھرکم پیڑ لگائے گئے ہیں۔پیرس میں تو سڑک پر درمیانی اور دائیں اور بائیں تین رَو میں اونچے اور بڑے پیڑ چپے چپے پر دکھائی دیتے ہیں۔ ہندستان میں کبھی بدنامِ زمانہ سنجے گاندھی نے ایمرجنسی کے دوران پیڑ لگانے کی مہم شروع کی تھی مگر ہمارے ملک میں ہر اچھی مہم کا کم و بیش وہی حشر ہوتا ہے۔ سرکار بھی ایسے بہ ظاہر غیر منافع بخش کاموں کو کیوں انجام دے۔پیڑ لگانے اور پیڑ کی کٹائی بند ہونے سے کسی بھی سیاسی جماعت کو کیوں کر یہ یقین ہو کہ انھیں اس سے کچھ زیادہ وُوٹ مل جائیں گے اور وہ اقتدار پر قابض ہو جائیں گے۔ شہروں میں جو تالاب تھے،ان کو بھر کر بڑی بڑی بلڈنگیں بن گئیں۔ گانو گانو میں بھی اب تالاب نہیں ہیں، جس کی وجہ سے زمین کے اندر پانی کی سطح بہ تدریج نیچے جا رہی ہے۔ گرمی کے موسم میں ہزاروں گانوں میں پینے کے پانی کے سلسلے سے مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔
ابھی ہم جو گرمی سے جیتے جی مر رہے ہیں، اس سے بچنے کا کوئی آسان راستا ہرگز نہیں ہے۔ اس کے لیے ایک طویل منصوبہ چاہیے اور ہریالی قایم کیے بِنا موسم کے جلال کو سنبھالا نہیں جا سکتا۔ایک سو چالیس کروڑ کی آبادی میں اگر ایک سو چالیس کروڑ پیڑ لگا دیے جائیں تو ہمیں یقین ہے کہ چند برسوں میں درجۂ حرارت شاید ہی چالیس سے اوپر جا پائے۔مگر ماحولیات پر توجہ کون دے رہا ہے اور کسے فکر ہے کہ عام آدمی کس کس طرح سے جی اور مر رہا ہے۔
]مقالہ نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں[
—
—————————— ————–
ڈاکٹر تسلیم عارف
اسسٹنٹ پروفیسر،
شعبۂ اردو، جی ایل اے کالج، نیلامبر پتامبر یونی ورسٹی،
میدنی نگر، پلامو، موبائیل: ۷۰۰۴۸۴۶۶۹۲ (بنیادی اور واٹس ایپ نمبر)
Dr. Tasleem Arif
Assistant Professor(Contractual/Class Based)
Department of Urdu, GLA College,
Nilamber Pitamber University, Medininagar, Palamu
Mobile: 07004846692(Main & Whatsapp)