دین اسلام کی حفاظت کاوعدہ تاقیامت اللہ رب العزت نے خود فرمایا ہے جیساکہ فرمان باری تعالیٰ ’’بیشک یہ ذکر عظیم (قرآن کریم)ہم نے ہی اتارا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے‘‘۔(قرآن ۔سورئہ حجرآیت9)دین محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کا تاقیامت وعدئہ الٰہی اور ساتھ ہی نبوت کے فرائض کی ادائیگی امت مسلمہ کے ذریعہ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ’’اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں،اور برائی سے روکیں اور وہی لوگ بامراد ہیں‘‘۔(قرآن۔سورئہ عمران آیت104)
مذکورہ آیت کریمہ میں مخصوص جماعت اور گروہ سے مرادامت امسلمہ کے مصلحین،مجتہدین اور مجدددین ہیں۔
امت مسلمہ کے ایمان،عقیدے،نظام حکومت اور معاملات میں اگر ہلکی(معمولی)سی خرابی پیدا ہوتی ہے تو اس کی اُس زمانے کے مصلحین اصلاح کرتے ہیں۔
اگریہ معمولی سی خرابی بگاڑ کی شکل اختیار کرلے لوگ دین سے دور ہونے لگیں،دین پر عمل کرنا دشوار ہوجائے تو اس کی اصلاح کیلئے مجتہد آئیں گے۔ اگر یہی بگاڑ اس قدر بڑھ جائے کہ دین کی قدریں پامال ہونا شروع ہوجائیں،دینی شعارکا مذاق اڑایا جانے لگے،دین پر عمل کرناناممکن ہوجائے دین کانام و کام محض دکھاوے وریاکاری کیلئے رہ جائے،دین اسلام کی مخالف طاقتیں بہت طاقتور ہوجائیں، دین کاکام کرنے والوں کیلئے کام کرنا دشوار ہوجائے تو ان نازک حالات میں اللہ رب العزت کی طرف سے مجدد کو بھیجاجاتا ہے جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ’’اللہ جسے چاہتا ہے اپنے حضور میں (قرب خاص اوردین کی خدمت کیلئے)منتخب فرمالیتا ہے اور اپنی طرف راستہ دکھاتا ہے (آنے کا)جو قلبی رجوع کرتا ہے‘‘(قرآن۔سورئہ شوریٰ آیت 13)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس امت کیلئے ہر صدی کے آخر میں کسی ایسے شخص کو پیدا فرمائے گاجو اس امت کے لئے اس کے دین کی تجدید کرے گا۔(ابودائود)
ان نازک حالات میں اللہ تعالیٰ اپنے دین کی بقااورتحفظ کیلئے جن بندوں کاانتخاب فرماتا ہے ان میں یہ چند خصوصیات بچپن سے ہی پائی جاتی ہیں۔
ایسے لوگوں کا انتخاب اللہ تعالیٰ ان کے بچپن سے ہی فرمالیتا ہے،یہ بچپن سے ہی بہت ذہین ہوتے ہیں،ان کا بچپن عام بچوں سے مختلف ہوتا ہے،یہ باکردار،باحیا،محنتی اور بہت ذہین ہوتے ہیں،خداداد تخلیقی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں۔ان کے مرتبہ ومقام سے ان کے والدین کو بچپن سے ہی آگاہ کر دیا جاتا ہے ان تمام خصوصیات کو جمع کیا اللہ رب العزت نے حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمدفاروقی سرہندی رحمتہ اللہ علیہ کی ذات بابرکت میں۔
آپ کا اسم گرامی ’’احمد‘‘ کنیت ’’ابوالبرکات‘‘
لقب ’’بدرالدین‘‘اور خطاب’’امام ربانی مجد الف ثانی‘‘ہے۔
آپ کی ولادت شب جمعہ14/شوال المکرم 971 ھ مطابق 5/جون 1564ء کو سرہندمیں ہوئی۔آپ کے والد ماجد کا اسم گرامی حضرت شیخ عبد الاحد فاروقیؒ اور معروف(مخدوم)سے تھے اسی وجہ سے آپ کی اولاد کو’’مخدومی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
آپ کے والد جلیل القدر علماء میں سے تھے اور طریقت میں شیخ عبد القدوس گنگوہیؒ سے بیعت کا شرف حاصل تھا۔آپ کاسلسلہ نسب اکتیس واسطوں سے امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ تک پہنچ جاتاہے اس لئے آپ فاروقی کہلاتے ہیں۔بچپن سے ہی آپ سے ولایت کے آثار ظاہر ہوتے تھے چہرئہ مبارک پر بھی عجیب نور ظاہر رہتا تھاجو بھی آپ کو دیکھتا تووہ اس آیت مبارک کا مصداق سمجھتا ’’یوں لگے جیسے اس کا تیل خود بخود بھڑک اٹھے اگر چہ اسے آگ نے مس نہیں کیا ہو ‘‘۔(قرآن۔سورئہ نورآیت 35)
ایک مرتبہ آپ بچپن میں بیمارہوئے اور کافی کمزور بھی نظر آنے لگے تھے آپ کی والدہ بہت بے چین وپریشان ہوئیں آپ کو حضرت شاہ سید کمال کیتھلی قدس سرہٗ کی بار گاہ میں لیکر حاضر ہوئیں اور دعا کی درخواست کی حضرت شاہ کمال کیتھلی قادری رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایاـ’’مطمئن رہو آپ کے بچے کی عمر دراز ہوگی یہ اپنے وقت کاعالم ،عارف،کامل ہوگا۔ آپ کے حق میں بہت سی بشارتیں حضرت شاہ کمال کیتھلیؒ نے آپ کے والد کو بھی سنائی تھیں۔
آپ کو مجدد الف ثانی اس لئے کہتے ہیں یعنی پرانے کو ’’نیا‘‘ کرنے والا،یا اس طرح سمجھ لیا جائے کہ کسی بھی معاملہ کو اس کی ’’اصل‘‘ کی طرف لانے والا۔
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ہزار سال پورے ہو رہے تھے تو شیخ احمد فاروقی سرہندی علیہ الرحمہ کی ولادت ہوئی۔آپ نے دین اسلام کی تجدید وحفاظت اور احیاء شریعت کا جو عظیم کام بر صغیر پاک و ہند میں سرانجام دیا وہ اسلامی تاریخ میں امتیازی شان رکھتا ہے۔اسی وجہ سے آپ کا لقب مجدد الف ثانی ایسا مشہور ہوا کہ لوگ آپ کو اسی نام سے زیادہ جانتے اور پہچان تے ہیں۔
آپ نے ابتدائی تعلیم میں قرآن کچھ درسی وتصوف کی کتب اپنے والد ماجد سے پڑھیں۔اس کے بعد حضرت مولانا کمال کشمیریؒ کی خدمت میں حاضر ہو کر عضدی وغیرہ جیسی دقیق کتابیں پڑھیں۔پھر حضرت مولانایعقوب حسن صرفی کشمیری سے آپ نے کتب حدیث پڑھیں اورسلسلہ کبرویہ میں حضرت مجدد علیہ الرحمہ آپ سے بیعت ہوئے۔
ان کے بعد حضرت مجدد صاحب نے قاضی بہلول بدخشی سے چودہ یا پندرہ کتب کی روایت و اجازت حاصل کی۔ان کتب میں تفسیر واحدی اور اس کی مئولفات،تفسیر بیضاوی اور اس کی مصنفات،بخاری اور اس کی مئولفات،مشکوٰۃ تبریزی،شمائل ترمذی،امام سیوطی کی جامع صغیر،قصیدہ بردہ شریف وحدیث مسلسل الراحمون یرحمھم الرحمان ارحموامن فی الارض یرحمکم من فی السماٸ کے ساتھ مشکوٰۃ المصابیح کی اجازت حاصل کی یہاں تک کہ حضرت مجدد صاحب سترہ سال کی عمر میں فارغ التحصیل ہوگئے۔
تحصیل علوم سے فراغت کے بعدآپ آگرہ تشریف لے گئے اس زمانہ میں آگرہ دارالسلطنت اور مرکز اہل فضل وکمال تھا وہاں آپ نے درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا۔آگرہ میں آپ کا کافی دن تک قیام رہا آپ کے والدشیخ عبد الاحد بھی آپ کی محبت میں آگرہ تشریف لے آئے۔جب آگرہ سے سرہند کیلئے آپ اپنے والد کے ساتھ واپس ہوئے توتھانیسرنامی مقام پر آپ کا نکاح شیخ سلطان کی صاحبزادی سے ہوا۔اللہ نے آپ کو سات صاحبزادے اور تین صاحبزادیاں عطا فرمائیں۔جب تک آپ کے والد(شیخ عبد الاحد فاروقی) حیات رہے آپ والد کی خدمت میں رہے۔
میدان طریقت میں آپ نے اپنے والد سے سلسلہ چشتیہ،قادریہ میں بیعت وخلافت حاصل کی۔سلسلہ کبرویہ،سہروردیہ،قلندریہ اور مداریہ میں بھی آپ کو آپنے والد سے نسبت حاصل تھی۔ سلسلہ عالیہ قادریہ میں حضرت شاہ کمال کیتھل قادریؒ سے ایام طفولیت میں توجہات حاصل ہوئیں لیکن جب شعوری عمر کو پہنچے تو شاہ کمال کیتھلیؒ کے نبیرہ وجانشین سید شاہ سکندر کیتھلیؒ کے دست مبارک سے شاہ کمال کیتھلیؒ کا خرقہ خاص عطا ہوااور ساتھ ہی سلسلہ عالیہ قادریہ میں اجازت و خلافت بھی حاصل ہوئی۔
خرقہ مبارک کا عطا ہونا اورخلافت سے نوازنا یہ شاہ کمالؒ کی وصیت کے مطابق ہوا جو آپ نے اپنی حیات میں فرمائی تھی۔
حضرت خواجہ باقی باللہ صاحبؒ سے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں بیعت ہو کر انتہائی کمال حاصل کیا۔حضرت خواجہ باقی بااللہ صاحبؒ کے احسانات کا ذکر فرماتے ہوئے حضرت مجدد صاحب نے اپنے مخدوم زادوں کی خدمت میں تحریر فرمایا تھا’’حمد و صلوٰۃ اور تبلیغ دعوات کے بعد مخدوم زادوں کی جناب میں عرض ہے کہ یہ فقیر سر سے پائوں تک آپ کے والد بزرگوار کے احسانات میں غرق ہے اور طریقہ نقشبندیہ میں الف،ب کا سبق ان ہی (خواجہ قدس سرہٗ)سے حاصل کیا ہے اس راہ میں حروف تہجی بھی ان ہی سے سیکھے ہیں اور اندراج النہایۃفی البدایۃ(ابتداء میں انتہا کا درج ہونا)کی دولت بھی ان ہی کی صحبت کی برکت سے حاصل ہوئی ہے۔ان کی توجہ شریفہ نے ’’ڈھائی ماہ‘‘میں اس ناقابل کو نسبت نقشبندیہ تک پہنچا دیا اور ان اکابر کا حضور خاص عطا فرما دیا۔ان کی توجہ شریف کی برکت سے معارف توحید،اتحاد،قرب و معیت اور احاطہ وسریان میں شاید ہی کوئی دقیقہ رہ گیا ہو جو اس فقیر پر نہ کھولا گیا ہو اوراس کی حقیقت کی اطلاع نہ دی گئی ہو‘‘۔حضرت مجدد صاحب کو خواجہ باقی بااللہ صاحبؒ سے بیعت ہونے کے بعد جوباطنی ترقیاں وکمالات حاصل ہوئے وہ اپنے آپ میں خود ایک مثال ہیں حضرت مجدد صاحبؒ اپنی پاکیزہ فطرت کی وجہ سے اپنے باطنی کمالا ت وروحانی ترقیوں پر ہمیشہ اللہ رب العزت کا شکریہ ادا کیا کرتے تھے یہاں تک کہ جن کے ذریعہ(مولا ناحسن کشمیریؒ) آپ کوحضرت خواجہ باقی باللہ صاحبؒ کے دربار تک رسائی حاصل ہوئی ان کا بھی آپ نے منکسرانہ انداز میں شکریہ ادا کیا اور آپ نے ان کو لکھا(مولانا حسن کشمیریؒ) کو’’فقیر آپ کی عنایت کا شکریہ ادا کرنے سے قاصر ہے اوراس احسان کا بدلہ اتارنے سے عاجز ہے۔یہ تمام روحانی ترقیاں اور یہ تمام مشاہدات و کمالات آپ کے اسی احسان و انعام پر مبنی ہیں اور اسی سے وابستہ ہیں۔آپ کے طفیل وہ کچھ دیا گیا جو شاید ہی کسی نے دیکھا ہو۔آپ کے وسیلہ کی برکت سے وہ لطف و سرور ملا ہے جس کا مزہ شاید ہی کسی نے چکھا ہو‘‘۔
آپ کے خلیفہ خواجہ محمد ہاشم کشمی تحریر فرماتے ہیں:’’اس کمترین نے بارہا حضرت مجدد صاحب سے سنا ہے کیا ہم اور کیا ہمارا عمل۔جو کچھ بھی ہم کو ملا ہے وہ صرف اللہ کا کرم ہے۔اگر کوئی چیز اس کے کرم کے واسطے بہانہ بنی ہے تو وہ سید الاولین والآخرین کی متابعت ہے ہمارے کام کا مدار اسی پر ہے۔جزوی یا کلی طور پر جو بھی ملا ہے اتباع سنت کی بدولت ہی ملا ہے۔اور جو کچھ نہیں ملا ہے اس وجہ سے نہیں ملا کہ بشریت کی وجہ سے ہم سے اتباع سنت میں کوتاہی ہوئی ہے‘‘۔(از۔مشک مجددی)
الغرض حضرت امام ربانی مجدد الف ثانیؒ شعوری عمر کو پہنچے تو اکبر باد شاہ کا دور حکومت تھااس کے دور کی ابتدا 963ھ۔ 1556ء سے ہوئی اورانتہا1014ھ۔1605ء میں ہوئی۔
اکبر کے مزاج میں جیسے ہی مذہب اسلام کے لئے بے رغبتی پیدا ہونا شروع ہوئی اور اکبر تیزی کے ساتھ دین اسلام کے بنیادی اصولوں سے ہٹ(منحرف ہو)کر بات کرنے لگایہاں تک کہ 990ھ۔میں دین اسلام کے بجائے ایک نئے’’دین‘‘یا نئے ’’طریقہ‘‘کا اعلان اکبری دربار سے کیا گیا اور اس نئے دین یا نئے طریقہ کو ’’دین الٰہی‘‘کے نام سے جانا گیا۔
اکبر چونکہ خود تو کم علم تھا۔لیکن اس کے دربار کے علماء سوء میں ابو الفضل و فیضی نے اس کے عقائد کو اور زیادہ خراب کر دیا تھا۔اس کے دور حکومت میں مساجد ومدارس کو منہدم کیا جانے لگا،حلال جانور ذبح کرنے پر پابندی عائد کی گئی۔جبکہ حرام خوری اور شراب نوشی پر کو ئی پابندی نہیں تھی۔شعائر اسلام کو مٹایا جانے لگا احکام شریعت کو نظر انداز کر کے باطل نظر یات کو فروغ دیا جانے لگا۔
سجدئہ تعظیمی کوواجب قرار دیا گیا۔بدعات و خرافات کا چرچہ چاروں طرف عام ہو گیا۔باطل رسومات کی اشاعت ہو نے لگی۔اُس وقت جو علماء حق تجدید دین میں مصروف تھے انہی میں سے ایک ذات حجتہ الاسلام حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ کی بھی تھی جوتجدیدی اوراصلاحی کاموں میں اپنا تمام وقت اوراپنی جان عزیزکو لگا ئے ہوئے تھے اور اسلام کی سر بلندی و اشاعت کیلئے برابر کو شش کر رہے تھے۔
لیکن یہ حضرات اس طرح کامیاب نہیں ہو سکے اپنے مقصد ومحنت میں کہ جس طرح یہ ہو نا چا ہتے تھے۔ کیونکہ کہ اس کام کی تکمیل کیلئے اللہ رب العزت کوکسی اور ذات گرامی کا انتخاب مقصود تھا۔
چنانچہ اس نازک اور پر فتن دور میں بدعات وخرافات کے سد باب کیلئے اللہ تعالیٰ نے حضرت امام ربانی مجدد الف ثانیؒ کومنتخب کیا۔1605ء میں جب اکبر کا انتقال ہوااور8جمادی الثانی 1014ھ۔مطابق 21اکتوبر1605ء کونورالدین جہانگیر تخت پر بیٹھاآپ جلال الدین اکبر کے دور میں تحصیل علوم میں مشغول تھے اس لئے آپ اس وقت زیادہ کھل کر’’دین الٰہی‘‘ کی مخالفت نہیں کر سکے۔اس وجہ سے آپ نے تجدید دین کا بیڑہ سلطان نور الدین جہانگیر کے دورحکومت میں اٹھایا۔
آپ کے اس تجدیددین کے کام کو دیکھ کراور آپ کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ سے مخالفین بہت پریشان ہوگئے۔اس کے علاوہ دربار شاہی میں نور جہاں(جہانگیر کی اہلیہ)کی وجہ سے رافضیوں کا اثر بہت بڑھ گیا تھا۔رافضیوں کے رد میں اس واقعہ سے چند سال پہلے حضرت مجدد صاحب ایک رسالہ تحریر کر چکے تھے اس رسالہ کی وجہ سے بااثر شیعہ حضرات آپ سے بغض رکھتے تھے۔آپ کے تذکرہ نگاروں نے چند وجوہات آپ کی گرفتاری کی اور بھی بیان کی ہیں ان میں اہل تشیع کا دربار میں اثر ورسوخ کا بڑھنا،جہانگیر کے وزیر اعظم آصف جاہ جو(شیعہ)تھااس نے باد شاہ کے دربار میں آپ کی بڑھتی شہرت سے خطرہ ظاہرکیا۔اس کے علاوہ آپ کے اسرارومعارف سے متعلق مکتوب پر اعتراضات کئے گئے ان سب باتوں کے ذریعہ بادشاہ نورالدین جہانگیر کے کان بھر دئے گئے۔یہاں تک کہ اس وقت کے علماء سوء اورحاسدین نے آپ کے متعلق بادشاہ سے من گھڑت باتیں بھی بیان کرنا شروع کردیں تاکہ آپ کو اپنے مقصد سے روکا جا سکے۔حاسدین کی باتوں میں آکرنورالدین جہانگیر نے دربار میں حاضر ہونے کا حکم صادر کیا۔حضرت مجددؒ کی گرفتاری کے بیان میں شاہ جہاں کی عقیدت بھی قابل ذکر ہے شہزادئہ شاہ جہاں کو درباری آداب وسجدئہ تحیت کا اندازہ تھا کہ حضرت مجدد اس پر عمل نہیں کریں گے۔اس نے حاضری سے پہلے دوعالموں کے ذریعہ فقہ کی کتابیں دیکر آپ کے پاس بھیجا اور خواہش ظاہر کی کہ ’’آپ بادشاہ کو سجدئہ تحیت کر لیں،میں اس صورت میں آپ کی ضمانت لیتا ہوں کہ بادشاہ سے آپ کو کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی‘‘آپ نے علماء سے فرمایا ’’یہ رخصت ہے مگر عزیمت یہی ہے کہ غیر اللہ کو سجدہ نہ کیا جائے‘‘۔
جب آپ بادشاہ کے سامنے حاضر ہوئے تو آپ سے چند سوالات کئے گئے اصل سوال آپ کے اس مکتوب کے بارے میں تھا کہ جس میں آپ نے اپنے روحانی عروجات کا ذکر فرمایا تھاآپ نے اس کا مثال کے ساتھ جواب دیا جس سے بادشاہ لاجواب ہوکر خاموش ہوگیا۔اس معاملہ کو ٹھندا ہوتا ہوا دیکھ کر مخالفین نے بادشاہ کے سامنے سجدہ تحیت(زمین بوسی)نہ کرنے کا الزام لگایااسی واقعہ کی طرف ڈاکٹرعلامہ اقبال نے اشارہ فرمایا ہے:
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفس گرم سے ہے گرمئی احرار
وہ ہند میں سرمائیہ ملت کا نگہباں
اللہ نے بروقت کیا جس کو خبر دار!
جب جہانگیر کو اپنی اہانت معلوم ہوئی تو آپ کو قید کرنے کا حکم دیا۔
حضرت مجدد الف ثانیؒ کوایک سال کیلئے قلعئہ گوالیار میں قید کر دیاگیا۔پھر تین سال دس مہینے شاہی فوج میں نظر بند رہے۔قید کئے جانے پر آپ کے مال واسباب،کتب وجائیداد کو شدید نقصان پہنچا۔
جیل میں رہ کر آپ نے تبلیغ دین کے بہت بڑا کام کو انجام دیا جیل میں جتنے بھی فاسق،بدکار،فجار،ظالم قیدی تھے ان پر آپ کی تبلیغ اورآپ کی صحبت کا یہ اثر ہوا کہ وہ سب کے سب توبہ کر کے دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے،ان کے چہرے نور الٰہی سے چمک اٹھے اور جو بھی جیل سے باہر نکلتا وہ اسلام کا سچاسپاہی بن کر نکلتا۔
جب بادشاہ کو اس بات کا علم ہوا کہ جیل میں مجدد الف ثانی کے ذریعہ تبلیغ دین کا سلسلہ جاری ہے تو باد شاہ آگ ببلولہ ہو گیااور حکم نامہ جاری کیا کہ شیخ احمد سر ہندی سے کہو کہ وہ اگر ہمیں سجدئہ تعظیمی کر لیں تو ہم ان کو معاف کر دیں گے۔آپ نے یہ کہکر سجدئہ تعظیمی کی مخالفت کی کہ سجدہ اللہ کا حق ہے اور اللہ کا حق کسی بھی حال میں بندے کو نہیں دیاجا سکتا۔
جب عبادتوں میں بگاڑ پیدا ہونا شروع ہو جائے تو دین اسلام کو خطرہ لا حق ہو نے لگتا ہے،لیکن جب پورے دین میں بگاڑ پیدا ہو جا ئے اور بگاڑ کا نام ہی اصلا ح رکھ دیا جائے اور بے دینی کو عین دین ٹھرایا جائے تو یہ بہت بڑا خطرہ ہے اور اکبری فتنہ اس قدرخطرناک و شدیدتھا کہ اس کا فساد ایک خطہ تک محدود نہیں تھا بلکہ دنیا کا ایک بر اعظم اس کی لپیٹ میں آچکا تھاایسے نازک وقت میں حضرت مجدد الف ثانیؒ ایک عظیم ایمانی طاقت وقوت کے ساتھ اٹھے اور اکبر کے خود ساختہ دین ’’دین الٰہی‘‘ اور باطل نظر یات کا خاتمہ کیا۔
بہر حال جہانگیر نے ایک نئی تدبیر سوچی کہ ایک چھوٹی سی کھڑکے ذریعہ آپ کو دربار میں بلایا جائے جس وقت آپ داخل ہو نگیں تو پہلے اپناسر داخل کریں گے بعد میں پائوں ہمارا مقصد پورا ہو جائے گا۔
لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت بڑاسمجھداربے مثل عقل والا اوراپنے کرم خاص سے آپ کو اعلیٰ بصیرت بھی عطا فرمائی تھی۔جس وقت آپ کو کھڑکی کے پاس لایا گیا اور اندر داخل ہو نے کو آپ سے کہا گیا تو سب سے پہلے آپ نے اپنے پائو ں داخل کئے بعد میں سر مبارک کویہ دیکھ کرجہانگیر غصہ میں (آگ کی طرح )بھڑک گیا اورآپ کی طرف تلوار سنبھالتے ہوئے کہنے لگااے شیخ احمد!کیا تم ہمیں جانتے نہیں ہو۔۔۔؟ہم کون ہیں بر صغیر پر ہمارے آباؤ اجداد نے حکومت کی ہے ہماری رگوں میں بابری خون ہے۔
یہ جملےسن کرحضرت مجددالف ثانیؒ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ اگر تیری رگوں میں بابری خون ہے تو میری رگوں خون فاروقی ہے جنہونے دنیا کی دو سپر پاور فل طاقتیں روم اورایران کو فتح کرکے اسلام کے دامن میں لاکر ڈال دیا تھا بتا تو کیا چاہتا ہے۔۔۔؟
یہ جملے سن کر جہانگیرکاپنے لگااور اُس کے ہاتھ سے تلوار گر گئی اور جہانگیر آپ کے قدموں میں گر گیااور معافی مانگنے لگااورآپ کی خدمت میں عرض گزار ہوا کہ اے’’شیخ احمد تم کیا چاہتے ہو‘‘حکم کرو!
آپ نے ارشاد فرمایا کہ’’اے بادشاہ میں شریعت محمدی کا نفاذ چاہتا ہوں،غیر شرعی رسومات وخرافات کو ختم کرانا چاہتا ہوں‘‘
اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے جنت میں بھیجاتو میں اس وقت نہیں جائوں گاجب تک خدا ئے تعالیٰ سے تجھے جنت میں داخل نہیں کرا لوں گا۔
یہ جملے اور اپنے حق میں جنت کی بشارت سن کرجہانگیر توبہ کر کے آپ کے دست مبارک پر خود بھی بیعت ہو ااور اپنے بڑے بیٹے شاہ جہاں کو بھی بیعت کرایا۔اس طرح تمام ہندوستان میں شریعت محمدی کا نفاذ ہوا۔
باطل رسومات بدعات و خرافات کا مکمل خاتمہ ہو گیا،چاروں طرف شریعت اسلامی کا پر چم لہرا نے لگااور اسلامی حکومت کا قیام عمل میں آیااوراکبری دین ’’دین الٰہی‘‘ کا خاتمہ ہوا۔
چنانچہ اس کے بعد جہانگیر نے جواحکامات جاری کئے ان کے مطابق اسلامی قوانین کو بحال کیا گیا۔
شراب نوشی پر روک لگائی گئی،حرام جانوروں پرپابندی کے ساتھ حلال جانوروں کوذبح کرنے کا حکم دیا گیا۔
مساجد کی تعمیر کی اجازت کے ساتھ اشاعت اسلام سے روک کو ہٹایا گیا۔
عموماًعلماء اورصوفیاء بادشاہوں اورامیروں سے دور رہ کر یہ تائثرات دیتے ہیں کہ ان کو دنیا والوں سے کو ئی سروکار(مطلب) نہیں ہے۔
مگر مجدد صاحبؒ امراء کی حقیقت سے واقف تھے وہ خوب جان تے تھے کہ ملک کے بڑے لوگوں کی اصلا ح کا اثر عوام پر ضرور پڑتا ہے اس لئے مجدد صاحب نے شروع سے ہی اکبری عہد کے بعض صحیح الفکر امراء سے برابر رابطہ رکھا جس کی وجہ سے بہت سے امراء نقشبندی سلسلہ سے وابستہ ہو گئے۔انہی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ اکبر کے بعد جہانگیر کی تخت نشینی ہو سکی جس نے ملک میں اسلامی قوانین کو رائج کیا۔
جس تخت پر اکبر جیسا باد شاہ بیٹھا تھاہندوامراء کا غلبہ تھا پچاس سال بعد اسی تخت پر جہانگیر جیسا صحیح الفکر اورراسخ العقیدہ باد شاہ بیٹھاجس نے مسلم خلفاء کی یاد کو تازہ کر دیا۔
یہ بات بھی حقیقت ہے کہ حضرت مجدد الف ثانیؒ عہد جہانگیری میں بہت بڑی مذہبی طاقت بن گئے تھے،اور جہانگیر باد شاہ آپکا بہت بڑامعتقد و معتمد ہو گیا تھا۔
جہانگیر کو آپ سے اس کمال درجہ کی عقیدت تھی کہ جہانگیر بادشاہ کہا کرتا تھاکہ میرا کو ئی بھی عمل اس قابل نہیں کہ میں جنت میں جا سکوں سوائے دو چیزوں کے ایک نسبت اورایک جملہ کے۔
باشاہ سے معلوم کیا گیا کہ وہ نسبت اورجملہ کیا ہے تو جہانگیر باد شاہ نے کہا کہ نسبت یہ ہے کہ میں مجدد الف ثانیؒ کا بہت بڑا عقیدت مند و معتمد ہوں۔اور جملہ یہ ہے کہ مجھ سے مجدد الف ثانیؒ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جہانگیر میں اس وقت جنت میں نہیں جا ئوں گاجب تک تجھ کو میرا ساتھ نصیب نہ ہو جائے گا۔
مجھے مجدد الف ثانی کی اس نسبت و جملہ پر ناز و فخر ہے۔
جہانگیر اکثر سرہند شریف حاضر ہوکر آپ کی خدمت اقدس میں حاضری دیتااور آپ کے یہاں دربار کا کھانا کھا تا اور بڑے فخر کے ساتھ کہتا کہ آج تک ایسا لذیذ کھاناکبھی نہیں کھایا۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ دین اسلام کی اشاعت اوراصلا ح امت کیلئے وقف فرما دیا تھا۔
دعوت حق کیلئے آپ کو قیدو بند کی صعوبتوں سے بھی گزرنا پڑااورجیل کے اندر بھی آپ اپنے مقصد کو نہیں بھولے تبلیغ دین میں مصروف رہے۔آپ کی خدمات کو تا قیامت فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
ہندوستان میں اسلام کی بنیاد سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ نے رکھی اور دین اسلام کی اشاعت کر کے ہندوستان کو منور فرمایا۔خواجہ صاحب کے خلفاء میں حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکرؒ،حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی رحمتہ اللہ علیہم نے اس کو خوب پروان چڑہایاان حضرات کی تبلیغ سے لاکھوں غیر مسلم مشرف بہ اسلام ہو ئے۔لیکن بعد میں کچھ باد شاہوں نے جن میں اکبر خاص طور سے قابل ذکر ہے۔اس نے اسلام کی اصل تصویر کو مسخ کرکے اسلام کومٹانے کی ناپاک کوششیں کی لیکن حضرت مجدد الف ثانی ؒ نے اُس کو اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہونے دیا اور مجدد صاحب نے اپنی محنت وکوششوں سے دین محمدی کی اصل تصویر کولوگوں کے سامنے پیش کرکے روشن و منور رکھااور تجدیددین کر کے نبوت کی جا نشینی کے حقوق اداکئے۔
زندگی کے آخری لمحات:
اس دنیائے فانی سے رخصت ہونے کے دن صبح چاشت کے قریب آپ کو استنجا کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی بَول(پیشاب) کرنے کیلئے طشت منگایا اس میں ریگ(ریت) نہیں تھا جس کی وجہ سے پیشاب کی چھینٹوں کے واپس آنے کا خطرہ تھاآپ نے ریت والا طشت منگایا اس کے آنے میں کچھ دیر ہوئی تو آپ نے فرمایا رہنے دو مجھ کو اٹھاکر بٹھائو میں اب پیشاب نہیں کروں گا۔آپ کی خدمت کرنے والے اس کیفیت کو نہیں سمجھ سکے توآپ نے فرمایا کہ ہم وضو نہیں توڑیں گے (استنجا نہیں کریں گے)آپ کواپنے رخصت ہونے کا علم ہو چکا تھااس وجہ سے استنجاکرکے وضو کرناتاخیرکا سبب بنتاکیونکہ صبح سے آپ کاوضوقائم تھاآپ نے اپنا سر تکیہ پر ٹیک لیا اوردایاں ہاتھ اپنے دائیں رخسار کے نیچے رکھ لیا ’’ذکر‘‘ میں مشغول ہو گئے ساتھ ہی آپ کی سانس کا چلنا بھی تیز ہوگیا بڑے صاحبزادے نے آپ کا حال معلوم کیا آپ نے فرمایا ’’خوبیم‘‘یعنی میں اچھا ہوں۔اور فرمایا دو رکعت نماز جوہم نے ادا کی کافی ہے بس یہ آپ کا آخری کلام تھا اس کے بعد آپ ذکر ’’اسم ذات‘‘ کرتے ہوئے 28/صفرالمظفر1034ھ
مطابق 10/دسمبر1624ء کواس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے۔۔۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔
آپ کا مزار پُر انوار سرہند شریف ضلع فتح گڑھ پنجاب میں مرجع خلائق بنا ہواہے کثیر تعداد میں مخلوق خدا فیضیاب ہو رہی ہے اور تا قیامت ہوتی رہے گی۔ انشااللہ