ہندوستان اور ایران صدیوں سے مشترکہ تہذیب وثقافت سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان دونوں ممالک کو کئی بار سخت آزمائش کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے، اس کے باوجود ان دونوں ملکوں میں کبھی ٹکراؤ نہیں ہوا ہے۔ نہ تو قرون وسطیٰ کے ادوار کی ہلچل اور نہ ہی جدید مشرق وسطیٰ کے تنازعات ان دونوں قدیم ساتھیوں کو محبت کو کم کر پائے ہیں،لیکن حالیہ دنوں میں ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای کا بیان جس میں بھارت اسرائیل اور میانمار کوغاصب قرار ہے، اور مسلمانوں کے تئیں ہندوستان کو سوتیلا رویہ رکھنے والا بتایا ہے۔ اگریہ بیان صریحاً غم و غصہ میں نہیں دیا گیا ہے تو تو مغربی ایشیا کے مبصرین جو امن کو فروغ دینے والے ہیں،انہیں اس پر رائے رکھنی چاہئے۔
علی خامنہ ای کویہ بات کس نے کہنے پر اکسایا؟ اس کا ٹریک ریکارڈ بتاتا ہے کہ ان کے پاس مقامی سے لے کر بین الاقوامی تک ہر مسئلے پر مستند بیانات دینے کے ماہر ین موجود ہیں۔ ایرانی حکومت، جس کی قیادت جمہوری طور پر منتخب نمائندے اور پیشہ ورانہ طور پر تربیت یافتہ سرکاری ملازمین کرتے ہیں، اکثر خود کو اپنے لیڈر کے پروویڈنس سے مختلف پاتے ہیں۔
ایرانی حکومت سپریم لیڈر پر تنقید کرنے سے گریز کرتی ہے لیکن اس کے سفارت کار اس دوست ملک کو تسلی دینے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کے تبصروں سے ناراض ہے۔ ہندوستان کے معاملے میں ایسا کئی بار ہو چکا ہے۔ خامنہ ای کے پیش رو آیت اللہ خمینی نے 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں ”ہندوستان میں مسلمان خطرے میں ہیں ” قسم کے بیانات دیے تھے اور پھر ایرانی سفارت کاروں کو فوری طور پر ہندوستان کو ”وضاحت” کرنا پڑی تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات ہموار ہیں۔ اسی وجہ سے آج تک ہندوستان ور ایران کے تعلقات برقرار ہیں۔ اور دونوں ایک ساتھ ملک کر رہ رہے ہیں۔
لیکن خامنہ ای اور ان کے سخت گیر حامیوں کو یاد دلانا مناسب ہو گا کہ زمینی حقائق کے پیش نظر ان کے ریمارکس بالکل بے بنیاد اور یہاں تک کہ بدنیتی پر مبنی کیوں ہیں۔ ہندوستانی مسلمان یہاں تک کہ ہندوستان میں رہنے والے ایرانی مشن سے وابستہ لوگ، ہندوستان میں مکمل آزادی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ایران کے برعکس انہیں مکمل جمہوری حقوق بھی حاصل ہیں۔ ہندوستانی مسلمان بلاشبہ کئی مسائل سے دوچار ہیں، جن میں سے بعض کی نوعیت بہت سنگین ہے، لیکن وہ ہندوستان میں آزادی کے ساتھ رہ رہے ہیں، اور جمہوری اور آئینی ذرائع پر بھروسہ کرکے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔
پیر کے دین جب ایران کا ثقافتی ادارہ ایران کلچرل ہاؤس میں عید میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی شاندار تقریب کئے ہوئے تھا اس وقت خامنہ ای نے یہ بیان دیا۔جب کہ اسی وقت ہندوستانی مسلمان مکمل آزادی کے ساتھ بڑے پیمانہ پر پورے ہندوستان میں عید میلاد النبی کا جلوس نکالے ہوئے تھے، اور ریاستی حکومتوں نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مکمل مدد فراہم کی کہ جلوس میں کسی طرح کی کوئی پریشانی نہ ہو۔
ایران پہلا ملک تھا جس نے ہندوستان میں رسمی ثقافتی مشن شروع کیا۔ ایران کلچر ہاؤس نئی دہلی میں کسی بھی بیرونی ملک کا پہلا کلچر ہاؤس تھا جو ہندوستان کی آزادی کے بعد قائم کیا گیا تھا۔ یہ شروع سے ہی بہت متحرک رہا ہے، اور بہت سی کارآمد کام بھی کئے ہیں۔ مثال کے طور پر، قند پارسی میگزین، جو فارسی ریسرچ سینٹر، ایران کلچر ہاؤس کے ذریعہ شائع ہوتا ہے، ایران سے باہر فارسی زبان کا سب سے مشہور رسالہ ہے۔ یہ تقریباً 40 سال سے مسلسل شائع ہو رہا ہے۔ایرانی کلچر ہاؤس دونوں ممالک کے مختلف اداروں کے درمیان ثقافتی اور ادبی تعلقات کو مضبوط کرنے کے اعصابی مرکز کے طور پر کام کر رہا ہے۔
ایران کلچر ہاؤس سیمینارز اور دیگر تقریبات کا اہتمام کرتا ہے تاکہ ایران اور ہندوستان کے بارے میں لوگوں کو سمجھایا جا سکے۔ ان تقریبات میں زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد خواہ وہ سرکاری ہوں یا نجی، شرکت کرتے ہیں۔ کئی بار ایسے لوگوں کو ایرانی مشن کی طرف سے اعزازات سے بھی نوازا جاتا ہے۔ ایسے مواقع پر ایران کے مقررین اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ ہندوستان دنیا کا سب سے پرانا دوست اور پرامن ملک ہے۔ شاید، ایرانی مشن کو ایسے پروگراموں کی تفصیلات اپنے سپریم لیڈر کے دفتر کو بھیجنی چاہئے۔
ہر رنگ و نسل کے متعدد ہندوستانی سالانہ فارسی زبان کی کلاسوں اور کلچرل ہاؤس کی طرف سے پیش کردہ دیگر کورسز میں حصہ لیتے ہیں۔ وہ کبھی بھی یہ احساس نہیں کرتے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہیں۔ ہندوستانی حکومت ہندوستانی یونیورسٹیوں میں فارسی زبان سکھانے والے 140 گروپس کی حمایت کرتی ہے، اور ہندوستانی پارلیمنٹ نے 2020 میں فارسی کو ہندوستان کی کلاسیکی زبانوں میں سے ایک کے طور پر تسلیم کیا ہے۔
اسی طرح ہندوستانیوں کے وفود کو ایران کے سالانہ دوروں پر بھیجا جاتا ہے اور انہیں ایرانی حکام سے متعارف کرایا جاتا ہے، جن میں سے اکثر خامنہ ای کے قریبی ہوتے ہیں۔ جو لوگ ایسے وفود کا حصہ رہے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ یہ تمام ایرانی معززین ہر ہندوستانی کے لیے ہندوستان کے ایک مکمل جمہوری ملک ہونے کی ضمانت دیتے ہیں۔
ہندوستان میں الگ الگ ریاستوں میں کچھ کچھ وقفے سے انتخابات ہوتے ہیں۔ مسلمان، دیگر تمام لوگوں کی طرح، ان انتخابات میں برابر کی حیثیت سے حصہ لیتے ہیں۔ وہ جس پارٹی کی حمایت کرنا چاہتے ہیں اسے ووٹ دیتے ہیں ان کے جمہوری حقوق کسی سے کم نہیں ہیں۔
حال ہی میں، ایران برکس گروپ کا حصہ بنا۔ اس وقت ہندوستان کی حمایت ایرانیوں کے لیے خوشی کا باعث رہی ہے۔ مرحوم ایرانی صدر ای رئیسی نے بھارت کی بروقت حمایت پر کھلے دل سے شکریہ ادا کیا۔ بھارت نے ایرانی تیل کی خریداری کے لیے بین الاقوامی پابندیوں کو بھی نظرانداز کر دیا ہے تاکہ تباہی کا شکار ایرانی معیشت آگے بڑھ سکے۔
اس طرح کا دوستانہ پس منظر درحقیقت ہندوستان اور ایران کے قریبی تعلقات کا بیناد رہا ہے۔ سپریم لیڈر کو مناسب طریقے سے نصیحت کی جانی چاہیے، اور اگر وہ گھٹیا بیانات دیتے ہیں، تو انھیں اپنی بھول کی اصلاح کرنے میں شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔
سنسکرت، ہندی، اردو اور فارسی میں ہندوستان اور ایران کے کلاسیکی ادب نے ان دو عظیم ممالک کو عالمی امن کے حامیوں کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس محاذ پر باہمی تعاون کی مختلف راہیں تلاش کی جانی چاہئے۔
ایرانی اور ہندوستانی مفکرین نے دنیا کے لوگوں کو امن، دوستی، اور ایک دوسرے کے احترام کی دعوت دینے کے لیے فارسی میں بہترین اشعار لکھے ہیں۔ اس نکتے پر زور دینے کے لیے ہندوستانی کلاسیکی شاعر عبدالقادر بیدل دہلوی کا حوالہ دیا جا سکتا ہے:
اعتبار خلق بیدل در لباس افتادہ است.
ورنہ یکسان است خون در پیکر طاووس و زاغ.
اے بیدل! مزاج میں فرق ان کے لباس کی شکل میں ہے، ورنہ
اگر غور سے دیکھا جائے تو مور اور کوے کی رگوں میں خون ایک ہی رنگ کا ہے۔
فارسی ادب ایسے اشعار سے بھرا ہوا ہے جو اس مقصدکو بہت ہی جذبہ اور جوش سے بیان کرتے ہیں، جیسا کہ ایران کے عظیم صوفی شاعر شیخ سعدی شیرازی کی ان سطروں سے ظاہر ہوتا ہے:
بنی آدم اعضای یک دیگرند
کہ در آفرینش ز یک گوہرند
چو عضوی بہ درد آورَد روزگار
دگر عضوہا را نمانَد قرار
تو کز محنت دیگران بی غمی
نشاید کہ نامت نہند آدمی
یعنی ‘ انسان ایک جوہر سے تخلیق ہوا ہے اور وہ ایک دوسرے کے اعضا ہیں۔اگر کسی عضو کو تکلیف ہو تو باقیوں کو بھی تکلیف ہوتی ہے۔ جو دوسروں کی تکلیف پر کوئی رنج و غم محسوس نہیں کرتے انھیں انسان نہیں کہا جاسکتا۔
*قادری 2021 سے مسلم اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آف انڈیا کے چیئرمین کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں، اس سے قبل وہ 2017 سے 2021 تک مسلم اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آف انڈیا کے قومی صدر رہ چکے ہیں۔ وہ ڈیجیٹل فرانزکس، ریسرچ اینڈ اینالٹکس سینٹر کے شریک بانی ہیں۔ وہ انڈو اسلامک ہیریٹیج سینٹر کے ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں۔وہ آل انڈیا تنظیم علمائے اسلام کے ترجمان بھی ہیں-