سرفرازاحمدقاسمی حیدرآباد
رابطہ: 8099695186
21 جولائی سے پارلیمنٹ کا مانسون اجلاس جاری ہے،آج چوتھا دن ہے لیکن خبر یہ ہے کہ چوتھے دن بھی ایوان میں جم کر ہنگامہ آرائی ہوئی اور پارلیمنٹ میں گزشتہ چار دنوں سے کوئی کام کاج نہیں ہو سکا،دہلی کے ایوان پارلیمنٹ سے لیکر بہار کے ایوان اسمبلی تک ہنگامہ اور احتجاج جاری ہے،لوک سبھا میں اپوزیشن قائد راہل گاندھی اور لوک سبھا رکن پرینکا گاندھی نے الزام لگایا ہے کہ ایوان میں صرف حکمراں پارٹی کے لوگوں کو بولنے کی اجازت دی جاتی ہے اور اپوزیشن کے لوگوں کو بولنے سے روکا جاتا ہے،راہل نے اجلاس کے بعد پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے بات چیت کی، انہوں نے کہا کہ ایوان میں صرف حکومت کے لوگوں کو بولنے کی اجازت ہے لیکن اپوزیشن کو اپنے خیالات پیش کرنے کی اجازت نہیں ہے انہوں نے کہا کہ میں اپوزیشن لیڈر ہوں ایوان میں بات کرنا میرا حق ہے لیکن حزب اقتدار والے مجھے بولنے نہیں دیتے ہیں۔راہل گاندھی نے الزام عائد کیا کہ پارلیمنٹ میں اکثر وبیشتر اپوزیشن کو اپنے خیالات کے اظہار کا موقع نہیں دیا جاتا،جبکہ حکومت کے اراکین کو بار بار بولنے کا موقع دیا جاتا ہے،راہل گاندھی نے کہا کہ بطور اپوزیشن لیڈر انہیں ایوان میں بولنے کا حق حاصل ہے مگر حکومت کے لوگ اپنی باتیں کہہ رہے ہیں جبکہ انہیں بولنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے،انہوں نے کہا کہ اپوزیشن آپریشن سندور اور پہلگام دہشت گرد حملے پر فوری بحث کا مطالبہ کررہی ہے،صحافیوں سے بات کرتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا کہ ایوان میں وزیر دفاع کو بولنے کی اجازت دی جاتی ہے حکومت کے لوگ بولتے ہیں لیکن جب اپوزیشن کچھ کہنا چاہتی ہے تو ہمیں اجازت نہیں دی جاتی،میں اپوزیشن لیڈر ہوں یہ میرا حق ہے مگر مجھے بولنے نہیں دیا جاتا انہوں نے مزید کہا اگر حکومت اجازت دے تو ایوان میں بحث تو ہوگی لیکن مسئلہ یہ ہے اور روایت یہ کہتی ہے کہ اگر حکومت کے اراکین بولتے ہیں تو اپوزیشن کو بھی موقع ملنا چاہیے ہم تو صرف چند جملے کہنا چاہتے تھے لیکن ہمیں روکا جا رہا ہے،راہل گاندھی نے وزیراعظم نریندر مودی پر طنز کرتے ہوئے کہا وہ ایک سیکنڈ میں ایوان سے باہر نکل گئے،پرینکا گاندھی نے بھی الزام لگایا کہ اگر حکومت ہر مسئلے پر بات کرنے کو تیار ہے تو وہ بات کرے لیکن یہ لوگ اپوزیشن لیڈر کو بولنے کا موقع ہی نہیں دیتے دوسرے لفظوں میں اپوزیشن کو ایوان میں بولنے کی اجازت نہیں ہے،ادھر راجیہ سبھا میں کاروائی شروع ہونے کے بعد اسی دن شام میں اچانک نائب صدر جمہوریہ جگدیپ دھنکر نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا،جس سے سیاسی گلیاروں میں ایک بھونچال آگیا اور اپوزیشن پارٹیاں حکومت پر حملہ آور ہو گئی کہ آخر اچانک دھنکڑ کی طبیعت کیسے خراب ہو گئی اور استعفے میں ان کی صحت کو بنیاد کیونکر بنایا گیا؟جس تیز رفتاری سے دھنکڑ نے اپنے عہدے سے استعفی دیا، آزاد بھارت میں یہ پہلا موقع ہے جب کسی نائب صدر جمہوریہ نے اتنی عجلت میں اس طرح سے اپنا استعفی پیش کیا ہو،استعفی کے بعد اب خبر ہے کہ ان کو جو سرکاری بنگلہ ملا تھا وہ بھی خالی کرانے کی تیاری چل رہی ہے،انکے گھر میں جوآفس تھی اسے سیل کردیا گیا اور سوشل میڈیا کی ٹیم کو بھی وہاں سے ہٹادیاگیا،اب عنقریب وہ بنگلہ ان کو خالی کرنا ہوگا،اسی طرح ان کو وداعی خطاب کا موقع بھی نہیں دیا گیا یعنی بغیر وداعی خطاب کے ہی وہ اپنے عہدے سےسبکددوش کردئیے گئے،یہ کام جتنی تیز رفتاری اور پراسرار انداز میں ہوا ظاہر ہے کہ اپوزیشن اس پر سوال پوچھ رہی ہے لیکن حکومت کی طرف سے ابھی تک کوئی واضح رد عمل نہیں آیا ہے،صرف وزیراعظم نے ان کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار کیا ہے،باقی دوسرے لیڈران اور حکومت کے نمائندے اس مسئلے پر خاموش ہیں،صدر کانگرس پارٹی ملکارجن کھڑ گے اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈران سوال پوچھ رہے ہیں کہ دھنکڑ کیوں مستعفی ہوئے؟ حکومت اس کی وضاحت پیش کرے لیکن ہر طرف سناٹا پسرہ ہوا ہے،ملک ارجن کھڑگے نے مطالبہ کیا کہ حکومت اس بارے میں وضاحت پیش کرے،جگدیپ دھنکڑ جنہوں نے اگست 2022 سے 14ویں نائب صدر جمہوریہ کے عہدے پر خدمات انجام دی،21 جولائی کو پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس کے پہلے دن ہی اپنی خدمات سے سبکدوشی اختیار کی ان کے اچانک استعفی سے ہر ایک کو حیرت ہوئی بلکہ اپوزیشن کو حکومت پر تنقید کرنے کا نیا ہتھیار ہاتھ آگیا کیونکہ بیشتر اپوزیشن لیڈر اسے سیاسی اقدام خیال کر رہے ہیں،راجہ سبھا کے قائد اپوزیشن و صدر کانگرس پارٹی ملک کارجن کھڑگے نے اخباری نمائندوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس اقدام کے پیچھے کے جواسباب ہیں اس سے انہیں کچھ لینا دینا نہیں ہے،حکومت اسے جانتی ہے اس پر تبصرہ کرنا ہمارا کام نہیں ہے،استفی قبول کیا جائے یا نہیں یہ حکومت کا معاملہ ہے اس سے ہمیں کچھ لینا دینا نہیں،استفعفی ایسے وقت دیا گیا جب پارلیمنٹ کا مانسون اجلاس شروع ہوا جس سے قیاس آرائیاں شروع ہو گئی کانگرس لیڈر گوربھ گوگوئی نے بھی دھنکڑ کے اچانک استعفی پیش کرنے اور مرکز کی جانب سے بیان جاری نہ کرنے پر سوال کیا اور کہا کہ وہ نائب صدر جمہوریہ کی اچھی صحت کے لئے دعا گو ہیں۔دھنکڑ کے خلاف 6 ماہ قبل ہی اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی،نائب صدر جمہوریہ با اعتبار عہدہ راجیہ سبھا کے صدر نشین ہوتے ہیں،جگدیپ دھنکڑ کے بحیثیت نائب صدر جمہوریہ استعفے کے بعد ان کے جانشین کا تقرر بعجلت ممکنہ کرنا ہوگا،دستور کے آرٹیکل 68 کے شق نمبر 2 کے تحت نائب صدر جمہوریہ کے عہدے کو زیادہ عرصہ خالی نہیں رکھا جا سکتا، آئندہ نائب صدر جمہوریہ کے انتخاب کی صورت میں حکمراں NDA کو واضح اکثریت حاصل ہے،نائب صدر جمہوریہ کو لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے رکن منتخب کرتے ہیں جبکہ ایوان والا کے نامزد ارکان بھی ووٹ دینے کے اہل ہوتے ہیں،مرکزی وزارت داخلہ نے بحیثیت نائب صدر جگدیپ دھنکڑ کے استعفی کے سلسلے میں ایک اعلامیہ جاری کردیا ہے، گزٹ نوٹیفکیشن پر مرکزی متمد داخلہ گووند موہن کے دستخط ہیں،دھنکڑ اپنی میعاد کے دوران استعفی دینے والے تیسرے نائب صدر جمہوریہ بنے ہیں سابق میں نائب صدر وی وی گری نے تین مئی 1969 کو اس وقت کے صدر جمہوریہ ذاکر حسین کے انتقال کے بعد کارگزار صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دی تھی اور دو جولائی سن 1969 کو وہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے صدارتی انتخاب لڑنے کے لئے بحیثیت نائب صدر مستعفی ہوئے وہ اپنی میاد مکمل نہ کرنے والے پہلے نائب صدر بنے تھے،نائب صدر بھیرون سنگھ شیخاوت نے یو پی اے امیدوار پر تیبھا پاٹل کے خلاف صدارتی چناؤ ہارنے کے بعد 21 جولائی 2007 کو عہدے سے استعفی دیا تھا، شیخاوت کے استعفے کے بعد نائب صدر کا عہدہ 21 دن تک خالی رہا،جس کے بعد محمد حامد انصاری کو اس عہدے کے لئے منتخب کیا گیا۔ نائب صدر آر وینکٹ رمن،شنکر دیال شرما اور کے آر نارائن نے بھی اپنے عہدوں سے استعفی دیا لیکن انہوں نے صدر کی حیثیت سے اپنے انتخاب کے بعد استفی دیا تھا، کرشن کانت واحد نائب صدر ہیں جن کا عہدے پر میعاد کے دوران انتقال ہوا،27 جولائی 2002 میں وہ آنجہانی ہوگئے تھے۔
دوسری جانب سیاسی لڑائی کےلئے ای ڈی کے استعمال پر سپریم کورٹ نے برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ہمیں سخت تبصرہ کرنے کے لئے مجبور نہ کریں،سپریم کورٹ نے کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سدارامیا کی اہلیہ بی ایم پاروتی اور ریاستی وزیر بیراتھی سریش کے خلاف MUDA کیس میں عرضی کو مسترد کر دیا،Live law کے مطابق کرناٹک ہائی کورٹ کی کارروائی کو منسوخ کرنے کے خلاف انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کی اپیل پر غور کرنے سے انکار کرتے ہوئے،عدالت عظمیٰ نے پوچھا،”ای ڈی کو سیاسی لڑائیوں کے لئے کیوں استعمال کیا جا رہا ہے؟” سی جے آئی بی آر گوائی نے اے ایس جی سالیسٹر جنرل تشار مہتا سے کہا، "براہ کرم ہمیں بولنے پر مجبور نہ کریں ورنہ ہمیں ای ڈی پر سخت تبصرہ کرنا پڑے گا… میرا مہاراشٹر کا اپنا تجربہ ہے… ملک بھر میں سیاسی لڑائیوں کے لئے ای ڈی کا استعمال نہ کریں۔”
چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) بی آر گوائی اور جسٹس کے ونود چندرن کی بنچ نے کہا کہ سیاسی لڑائی عدالت کے باہر لڑی جانی چاہئے۔بنچ نے یہ بھی پوچھا کہ اس طرح کی لڑائیوں کے لئے ای ڈی اور تفتیشی ایجنسیوں کا استعمال کیوں کیا جا رہا ہے۔ایڈیشنل سالیسٹر جنرل (اے ایس جی) ایس وی راجو نے ای ڈی کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے کہا، "ٹھیک ہے،ہم اسے واپس لے لیں گے لیکن اسے نظیر نہیں سمجھا جانا چاہئے۔”عدالت نے اس کے بعد درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ کے ایک جج کے سمن کو منسوخ کرنے کے استدلال میں کوئی خامی نہیں ہے۔عدالت نے کہا، "ہمیں واحد جج کے خیال میں اختیار کیے گئے استدلال میں کوئی خامی نہیں ملتی ہے۔عجیب حقائق اور حالات کو دیکھتے ہوئے،ہم اسے مسترد کرتے ہیں۔ہمیں کچھ سخت مشاہدات نہ کرنے کے لیے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل (اے ایس جی) کا شکریہ ادا کرنا چاہیے،”۔
دو چار دن پہلے مدراس ہائی کورٹ نے بھی ای ڈی کے اختیارات کو لے کر اہم تبصرہ کیا تھا،عدالت نے ای ڈی کے سلسلے میں کہا کہ یہ کوئی گھومتا ہوا گولا بارود یا ڈرون نہیں ہے،جو اپنے مرضی سے کاروائی کرے، نہ ہی یہ کوئی ‘سوپر کاپ’ ہے جسے ہر معاملے کی جانچ کرنے کا حق ملا ہے آرکے ایم پی کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس ایم ایس رمیش اور وی لکشمی نارائن کی بینچ نے پی ایم ایل کے تحت ای ڈی کی طاقت کو محدود کرنے کی بات کہی،اس نے آر کے ایم پاور جین پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کی 901 کروڑ روپے کی فکسڈ ڈپازٹ فریز کرنے کے ای ڈی کے حکم کو منسوخ کردیا، عدالت نے صاف کیا ہے کہ پی ایم ایل اے کے تحت کاروائی تبھی شروع کی جا سکتی ہے جب کوئی مقررہ جرم (پریڈ کیٹ آفینس) اور اس سے پیدا ہونے والی جرم کی آمدنی (پروسیڈس آف کرائم) موجود ہو،عدالت کے مطابق جب تک کوئی مجرمانہ سرگرمی نہیں ہوتی جو پی ایم ایل اے کے دائرے میں آئے اور اس سرگرمی سے جرم کی کمائی نہ ہو تب تک ای ڈی کا دائرہ اختیار شروع نہیں ہوتا،مدراس ہائی کورٹ نے اپنے تبصرہ میں ای ڈی کی طاقت کا موازنہ لمپیٹ مائن سے کی جسے کام کرنے کے لیے جہاز کی ضرورت ہوتی ہے،جہاں جہاز پریڈ کیٹ آفینس اور پروسیڈیس آف کرائم کی علامت ہے،واضح رہے کہ آر کے ایم پاور جین نے ای ڈی کے31 جنوری کے فریز حکم کو چیلنج کیا تھا،جسے کمپنی کے سینئر وکیل بی کمار نے سابق عدالتی فیصلوں کی اندیکھی اور نئے شواہد کی کمی میں غیر قانونی بتایا، کمپنی کو 2006 میں فتح پور ایسٹ کول بلاک الاٹ کیا گیا تھا،جسے سپریم کورٹ نے 2014 میں منسوخ کر دیا تھا،سی بی آئی نے اس معاملے میں شروع میں ایک ایف آئی آر درج کی تھی لیکن 2017 میں اسے بند کر دیا اس کے باوجود ای ڈی نے 2015 میں پی ایم ایل کے تحت جانچ شروع کی اور کمپنی کے کھاتوں کو فریز کردیا، جسے مدراس ہائی کورٹ نے پہلے منسوخ کر دیا تھا تازہ فیصلے میں عدالت نے ای ڈی کی کاروائی کو قانونی طور سے ناقابل قبول قرار دیا عدالت نے کہا کہ پی ایم ایل اے کے تحت کاروائی میں قانونی طور سے مقررہ طریقہ کار پر عمل کرنا ضروری ہے،اس طرح مدراس ہائی کورٹ کی جانب سے مرکزی ایجنسی کی سرزنش کی گئی اور منمانی کرنے پر عدالت نے سوال کئے۔
چیف جسٹس بی آرگوائی نے ایک مقدمے میں یہ بھی کہا کہ ہم خبریں یا یوٹیوب انٹرویوز نہیں دیکھتے ان کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب ای ڈی پر مسلسل سیاسی جانبداری اور اختیارات کے غلط استعمال کے الزامات لگ رہے ہیں،چیف جسٹس کا یہ دو ٹوک موقف ظاہر کرتا ہے کہ عدالت میڈیا کے بیانیوں سے متاثر ہوئے بغیر آئینی ذمہ داریوں کو نبھانے کےلئے سنجیدہ اور پرعزم ہے۔
جمہوریت کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ وہ جواب دہی کو محض نعرہ نہیں عمل کا حصہ بناتی ہے مگر جب خود وزیراعظم ہی اس وقت پارلیمان سے غیر حاضر رہیں جب ملک کے سب سے نازک اور حساس معاملات پر دونوں ایوان میں بحث ہونی ہو تو سوال صرف جمہوریت کے وقار کا نہیں رہ جاتا بلکہ لیڈرشپ کی سنجیدگی اور ترجیحات پر بھی سوالیہ نشان لگتا ہے،وزیراعظم نریندر مودی 23 سے 26 جولائی تک برطانیہ اور مالدیپ کے سرکاری دورے پر ہیں،گزشتہ کل وہ بیرون ملک دورے پر روانہ ہو گئے،جبکہ پارلیمنٹ کا مانسون اجلاس 21 جولائی سے جاری ہے،اجلاس میں حکومت نے آپریشن سیندور جیسے نہایت حساس اور بین الاقوامی سطح پر زیر بحث مسئلے پر اپوزیشن کے دباؤ میں آ کر بحث کی اجازت تو دی ہے اور یہ محض اتفاق نہیں ہوسکتا کہ جب اپوزیشن حکومت کو قومی سلامتی،خارجہ پالیسی اور عسکری کاروائیوں پر جواب دہ بنانا چاہتی ہے تو ملک کا اعلی ترین منتخب نمائندہ غیر حاضر رہنے کا شیڈول پہلے سے ہی کیونکر بنا چکا ہے اور کیوں وہ اجلاس سے بار بار غیر حاضر رہتا ہے؟ کیا ان کی نظر میں پارلیمنٹ کے اجلاس کی کوئی اہمیت نہیں ہے یا وہ ملک کے تئیں جوابدہ نہیں ہیں؟ پہلگام حملے کے بعد کیا گیا آپریشن سندور ایک ایسا اقدام ہے جس پر نہ صرف اندرون ملک بلکہ عالمی سطح پر بھی نظریں جمی ہوئی ہے۔ 22 اپریل کو 25 سیاحوں اور ایک مقامی شخص کی دہشت گردانہ حملے میں ہلاکت کے بعد ہندوستانی افواج نے پاکستان کے حدود میں عسکری اہداف پر کاری ضرب لگائی اور اسے جوابی دفاعی کارروائی قرار دیا گیا،اس کے بعد ملک کی فضا میں جس شدت سے سیاسی بیانات اور قومی سلامتی کے معاملات پر بحث چلی اس کا منطقی نتیجہ یہی تھا کہ وزیراعظم خود ایوان میں موجود رہ کر تمام سوالات کا سامنا کرتے مگر سوال یہ ہے کہ کیا نریندر مودی ایسی جمہوری مکالمے کی فضا میں اپنے آپ کو لا کر غیر متوقع یا ناگوار سوالات کا سامنا کرنا چاہتے ہیں؟ کل جماعتی میٹنگ میں اگرچہ پارلیمانی امور کے وزیر کرن رججو نے کہا کہ حکومت آپریشن سیندور پر بحث کے لیے تیار ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جب وزیراعظم موجود ہی نہیں ہوں گے تو بحث کا حاصل کیا ہوگا؟رججو نے خود اپوزیشن سے یہ امید بھی ظاہر کی کہ اجلاس کی کاروائی میں کسی قسم کا خلل نہ ہو گویا بحث ہو بھی تو اس کی سمت،اس کا دائرہ اور اس کے نتائج پہلے ہی طے شدہ ہوں گے یعنی سوال ہو مگر جواب نہ ہو،اس اجلاس میں شامل اپوزیشن اتحاد انڈیا کی 24 جماعتوں نے جو8 اہم نکات طے کیے ان میں پہلگام حملے،آپریشن سندور،بہار میں ووٹر لسٹوں کی ایس آئی آر،خارجہ پالیسی اور ڈونالڈ ٹرمپ کے متنازعہ جنگ بندی دعوے شامل تھے، ایسے میں اپوزیشن کا یہ تقاضہ کہ ان تمام معاملات پر پارلیمان میں سنجیدہ اور براہ راست مکالمہ ہو بالکل فطری ہے تاہم حکومت نے بادل ناخواستہ صرف ایک نقطہ یعنی آپریشن سیندور پر بحث کی منظوری دی جبکہ انتخابی فہرستوں پر ہونے والی مبینہ ہیرا پھیری اور جعل سازی پر کوئی فیصلہ نہ لے کر واضح کر دیا کہ وہ کن موضوعات پر روشنی ڈالنا چاہتی ہے اور کن پر پردہ ڈالنا ہے،کانگرس رہنما پرمود تیواری نے بجا طور پر یہ سوال کیا ہے کہ جب وزیراعظم کو معلوم تھا کہ وہ ان تاریخوں میں ملک سے باہر ہوں گے تو اجلاس کیوں کر بلایا گیا ؟ یہ سچائی اس وقت اور زیادہ سنگین ہو جاتی ہے جب عوام یہ دیکھتے ہیں کہ جو شخص انتخابات کے دوران ہر گلی، ہر اسٹیج،ہرچینل پر دکھائی دیتا ہے میڈیا کے ہر پلیٹ فارم پر وہی شخص چھایا رہتاہے لیکن جب ملک کے حساس معاملات پر جواب دینے کی نوبت آتی ہے تو پردے کے پیچھے چلا جاتا ہے یہ رویہ نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ جمہوری طرز قیادت کے منافی بھی ہے،وزیراعظم کی غیر موجودگی میں حکومت کی طرف سے بحث میں شرکت کرنے والے وزراء محض نمائشی کردار ادا کریں گے،جبکہ اصل فکری و اخلاقی قیادت کا سوال تشنہ رہے گا، اس سیشن کو اس لیے بھی اہم قرار دیا جا رہا ہے کہ یہ پہلا اجلاس ہے جس کے بعد جسٹس ورما کو ہٹانے کی تحریک کو سو سے زائد ارکان کی حمایت حاصل ہو چکی ہے اور ساتھ ہی اپوزیشن نے عدالتی غیر جانبداری، کسانوں کے مسائل،پنجاب میں مبینہ زمین ہتھیانے کے واقعات اور خواتین پر مظالم جیسے مسائل کو بھی ایجنڈے میں شامل رکھا ہے،ایسے میں یہ سوال بار بار ابھر کر سامنے آتا ہے کہ کیا وزیراعظم خود کو عوامی نمائندوں کے سوالات کے لیے دستیاب سمجھتے ہیں یا ان کی قیادت اب صرف تصویری مواقع،عالمی دوروں اور انتخابی ریلیوں تک محدود ہو چکی ہے،جمہوریت کی روح،سوال اور جواب کے درمیان امانت دارانہ رشتہ ہے اگر وزیراعظم خود اس رشتے کو غیر حاضر رہ کر توڑ رہے ہیں تو پھر باقی حکومت کی موجودگی میں محض رسمی کاروائی ہے،آپریشن سندور محض ایک عسکری مہم نہیں بلکہ اس کی کامیابی یا ناکامی کا اندازہ صرف میدان جنگ سے نہیں بلکہ پارلیمان میں دیے گئے جوابات سے ہوگا اور جب جواب دینے والا غیر حاضر ہوگا تو یہ کاروائی خود ایک سوال بن جاتی ہے ایسا سوال جس کا جواب ایوان نہیں تو تاریخ ضرور دے گی،یہ بھی سوال کیا جاتا رہا ہے کہ گزشتہ 11 سال میں ایک بھی پریس کانفرنس وزیراعظم نے نہیں بلائی آخر انہیں میڈیا کے سوالات کا سامنا کرنے کی ہمت کیوں نہیں ہے؟ جواب دہی سے وہ راہ فرار کیوں اختیار کرتے ہیں؟ ملک کے عوام ان سے جواب چاہتے ہیں،بہت سے سنگین مسائل ہیں، عوام جس کا جواب چاہتی ہے،لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت عوام کو اندھیرے میں رکھکر بے قوف بنارہی ہے ورنہ سوالات کا سامنا کرنے سے انھیں گھبراہٹ کیوں ہے؟ آپ سوچئے،غور وفکر کیجئے اور اندازہ کیجئے کہ آخر آنے والے دنوں میں اور کیا کچھ ہو سکتا ہے اور ملک کس رخ پر جا رہا ہے؟ کیا شاعر کے اس کلام میں سچائی نہیں ہے؟ کہ
سحر کی خوشیاں منانے والو،سحر کے تیور بتا رہے ہیں
ابھی تو اتنی گھٹن بڑھے گی کہ سانس لیناعذاب ہوگا
سکوتِ صحرا میں بسنے والو،ذرا رُتوں کا مزاج سمجھو
جو آج کا دن سکوں سے گزرا تو کل کا موسم خراب ہوگا۔
*(مضمون نگار معروف صحافی اور کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)*