29.8 C
Delhi
اگست 10, 2025
مضامین

ابن صفی ’ادب برائے زندگی‘ کا نقیب

از: محمد عارف اقبال
ایڈیٹر، اردو بک ریویو، نئی دہلی
Mobile: 9953630788
مشرق و مغرب میں ادب کی بیسیوں تعریفیں کی گئی ہیں اور آج تک کسی تعریف پر اتفاق نہیں ہوسکا۔ معروف ادیب و نقاد ڈاکٹر سیّد عبداللّٰہ نے ادب کی تمام قابل لحاظ تعریفات یکجا کرکے ایک جامع تعریف یوں کی ہے:
’’ادب وہ فن لطیف ہے جس کے ذریعے ادیب جذبات و افکار کو اپنے خاص نفسیاتی و شخصی خصائص کے مطابق نہ صرف ظاہر کرتا ہے بلکہ الفاظ کے واسطے سے زندگی کے داخلی اور خارجی حقائق کی روشنی میں ان کی ترجمانی و تنقید بھی کرتا ہے اور اپنے تخیل اور قوتِ مخترعہ سے کام لے کر اظہار و بیان کے ایسے مؤثر پیرائے اختیار کرتا ہے جن سے سامع و قاری کا جذبہ و تخیل بھی تقریباً اسی طرح متاثر ہوتا ہے جس طرح خود ادیب کا اپنا تخیل اور جذبہ متاثر ہوا۔‘‘
(اشاراتِ تنقید، صفحہ 344، از ڈاکٹر سیّد عبداللّٰہ، مکتبہ خیابان ادب لاہور، بار اوّل 1962)
ادب کی اس تعریف کے بعد ’’ادب برائے ادب‘‘ اور ’’ادب برائے زندگی‘‘ کے مفہوم تک بہ آسانی رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ تاہم ادب برائے زندگی کی تعریف علماء ادب کی زبان سے اس طرح بیان کی جاتی ہے کہ ادب کا اوّلین کام قارئین و سامعین کو مسرت بہم پہنچانا ہے۔ ادب کا دوسرا فریضہ یہ ہے کہ وہ زندگی کے بارے میں ہماری آگہی میں اضافہ کرے یعنی ہمیں اپنی ذات اور اپنے ماحول کو سمجھنے میں معاون ثابت ہو۔ لہٰذا ادب برائے زندگی کا نظریہ یہی ہے کہ ادب سے زندگی کو نکھارنے، اس کے معائب کو دور کرنے اور ایک بہتر زندگی کے لیے جدوجہد کرنے کی توقع کی جائے۔ اس کے برعکس ’’ادب برائے ادب‘‘ کے نظریہ کے علمبردار ادب کو ایک خاص جمالیاتی چیز قرار دیتے ہیں اور ادب میں مقصدیت اور ادب کی سماجی افادیت کے قائل نہیں۔ ان کے نزدیک ادب کا منصب فقط یہ ہے کہ وہ قارئین کو جمالیاتی مسرت سے ہمکنار کرے۔ ان کے خیال میں ادب سے جمالیاتی مسرت کے سوا کسی قسم کا سیاسی پیغام، اخلاقی مقصد یا سماجی افادیت کی توقع کرنا بد مذاقی ہے۔ یہ بحث طویل ہے کہ کیا خود ادب برائے ادب کے قائلین ایسا ادب تخلیق کرنے میں کامیاب ہوسکے جو مقصدیت اور معاشرے سے فرار حاصل کرچکا ہو؟
بیسویں صدی کے عظیم اردو ادیب، شاعر اور ناول نگار ابن صفی (آمد: اپریل 1928، بروز جمعہ) نے جس طرح تادمِ حیات ادب کی آبیاری کی، اس کی نظیر تادمِ تحریر دوسرے اردو ادیب پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ اس کے باوجود ابن صفی کو کم سے کم ان کی حیات میں اردو کے روایتی نقادوں نے قابلِ اعتنا نہیںسمجھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ابن صفی اپنا کام کرگئے اور اردو ادب کو اپنی انمول تحریروں سے مالامال کردیا۔ بدقسمتی ان روایتی نقادوں کے حصے میں آئی جو ادبی خدمات کو بھی سکّوں میں تولتے رہے۔ ابن صفی ایک مقصدی ادیب تھے، انہوں نے ادب کا رشتہ عام انسانوں سے استوار اور مستحکم کیا۔ ادب میں تن آسانی سے گریز کرتے ہوئے سخت اور خاردار راستے کو منتخب کیا۔ گویا پتھر کے کلیجے کو چیٖر کر دودھ کی نہر نکالی۔ انسان اور معاشرے سے جڑے ایک پیچیدہ نفسیاتی موضوع کو عام فہم مکالماتی طرز عطا کیا۔ الفاظ کو درخشانی و تابانی عطا کی اور معانی و مفاہیم میں جمالیاتی روح پھونکی۔ ابن صفی کے یہاں ترسیل و ابلاغ کا مسئلہ کبھی نہیں رہا۔ ابن صفی سے ایک غیر زبان کا بنگالی شخص بھی کہتا ہے کہ وہ ان کے ناول پڑھنے کے لیے اردو زبان سیکھ رہا ہے۔ ابن صفی بلاشبہ مقبولِ عام ادیب تھے لیکن ان کی تحریروں کو مقبول عام ادب (Popular Literature) کے خانے میں ڈال کر انہیں فراموش نہیں کیاجاسکتا۔
جاسوسی دنیا کے حوالے سے ابن صفی کا تعارف نکہت پبلی کیشنز، الٰہ آباد کے ذریعے ہوا۔ اسی ادارہ سے ان کا پہلا ناول ’’دلیر مجرم‘‘ مارچ 1952 میں شائع ہوا۔ ان کے بیشتر قارئین بھی ایک عرصہ تک ابن صفی کو ایک پُراسرار شخص سمجھتے رہے۔ ناول کی پُر اسراریت اپنی جگہ لیکن مصنف کا پُر اسرار ہونا بھی  بعض اوقات ان کے قارئین کو مسرور کرتا رہا۔ حالانکہ ابن صفی نے خود کو سات پردوں میں کبھی نہیں چھپایا۔ وہ ابن صفی سے قبل اسرار احمد تھے اور بحیثیت شاعر و ادیب اسرار ناروی کی حیثیت سے معروف بھی رہے۔ البتہ اردو دنیا میں ’’ابن صفی‘‘ کی شہرت نے ان کے ہم عصروں میں رقابت اور کسی حد تک حسد کی کیفیت پیدا کردی۔ یہ کیفیت اس وقت دوچند ہوگئی جبکہ وہ کراچی ہجرت کرگئے۔ پھر اس کے بعد ہند و پاک میں ابن صفی کا چراغ ہی روشن رہا اور اپنی تابانی سے اردو دنیا کو روشنی دیتا رہا۔ اس کے برعکس ان کے ہم عصر ادیبوں کا چراغ گل ہونے لگا یا بڑی حد تک مدھم پڑگیا۔ ان کے ہم عصروں میں جو حضرات یونیورسٹیوں میں شعبہ اردو سے وابستہ ہوئے، وہ ادب کے روایتی خول میں بند ہوگئے۔ ان پر بے بسی کی کیفیت طاری تھی۔ اردو ادیبوں، شاعروں اور اساتذہ کا وہ طبقہ جو ’’آزاد خیال‘‘ تھا، اس نے ہند و پاک میں ایک طرح کا ایکا قائم کرلیا جس نے اخلاق پر مبنی ادب کو حاشیے پر پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ سیاسی اسباب سے اس مذموم کام میں ابن صفی کے بعض قریبی احباب بھی اس طبقے کے ہمنوا بن گئے تھے۔ اس صورت میں ابن صفی کو مزید پُراسرار بنانے کی کوشش کی گئی تاکہ ان کی ادبی شخصیت بھی سر ّی ادب کی تہہ میں دب کر معدوم ہوجائے۔ کیا یہ بات عجیب نہیں لگتی کہ تخلیقی ادب کا یہ عظیم مصنف تو عوام کے دلوں پر حکومت کرتا ہو، اس کے ناولوں کے مطالعہ سے لوگ اپنی اُردو درست کر رہے ہوں، اردو سیکھ رہے ہوں، اور دوسری طرف ایوانِ ادب میں اس کی شخصیت ’’نامعلوم‘‘ یا غیر معروف بنادی جائے۔
جاسوسی ادب کے قارئین جانتے ہیں کہ ابن صفی کے ہر ناول کا بنیادی خیال باطل پر حق کی فتح ہے۔ وہ ہر حال میں قانون کا احترام کرنا سکھاتے ہیں۔ ان کی تحریریں مقصدیت سے خالی نہیں ہوتیں۔ ان کا ادبی کینویس ہمیشہ عالمی (Global) رہا ہے کیونکہ وہ انسانی اخلاقیات کے پُرزور حامی رہے۔ واضح ہو کہ انسانی اخلاقیات کی پاسداری نہ کرنے والے ہی روئے زمین پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی داستان میں چھوٹا سا جرم بھی نفسیاتی طور پر جرم کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ مسئلہ ایک شخص کا انفرادی یا تجارتی ہو، ایک گائوں یا شہر کا مسئلہ ہو یا اس سے آگے ایک ملک اور دیگر اقوام کا مسئلہ ہو، ہر جگہ جرم کی نفسیات یکساں ہوتی ہے چاہے واقعات کی نوعیت الگ الگ کیوں نہ پائی جائے —— انسانی اخلاقیات کے فقدان کے سبب ہی انسانی حقوق کی پامالی کا آغاز ہوتا ہے۔ اس حمام میں ایک عام فرد سے لے کر حکمرانِ سلطنت بھی ننگے نظر آتے ہیں —— لیکن جرم کی شدت اس وقت دوچند ہوجاتی ہے جب جرم کا ارتکاب محافظِ قوم کے ذریعے کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ابن صفی نے اپنے بعض ناولوں کے ’’پیش رس‘‘ میں اپنے قارئین کی توجہ اس جانب خصوصی طور سے مبذول کرائی ہے۔ یہ بھی ابن صفی کا منفرد کارنامہ ہے کہ وہ اپنے ہر ناول کا ’’پیش رس‘‘ اپنے قارئین کے دلچسپ خطوط کی روشنی میں لکھا کرتے تھے۔ افسوس کہ الٰہ آباد سے شائع ہونے والے ان کے ناولوں میں یہ ’’پیش رس‘‘ شامل نہیں کیے گئے۔ کاش عباس حسینی مرحوم اپنے ادارتی نقوش کے بعد ’’پیش رس‘‘ بھی شامل کردیتے تو اردو دنیا خاص طور سے ہندوستانی قارئین پر ان کا بڑا احسان ہوتا اور ابن صفی سے ان کے دیرینہ تعلق کا مزید اظہار بھی تصور کیا جاتا۔
ابن صفی جہاں اپنے قارئین کو اپنی تحریروں کے ذریعہ تفریح کا سامان مہیا کرتے ہیں وہیں زندگی کے پُرپیچ مسائل میں سنجیدگی اختیار کرنے کی دعوت بھی د یتے۔ ’’زرد فتنہ‘‘ (اگست 1971) کے پیش رس کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو
’’…آپ بعض معاملات پر سنجیدگی سے غور کریں۔ زندگی محض ہنسی خوشی کا کھیل نہیں ہے یہ اور بات ہے کہ میں ہنسی کھیل ہی کے ذریعے آپ کو زندگی کے حقائق سے قریب تر لانے کی کوشش کرتا ہوں۔‘‘
اسی پیش رس میں یہ اقتباس بھی فکرانگیز ہے:
’’… بڑا آدمی صرف وہ ہے جس کی تگ و دَو صرف اپنی ہی ذات کے لیے نہیں ہوتی۔ اگر مال دار ہوتا ہے تو خود کو ایک ’چوکیدار‘ سے زیادہ نہیں سمجھتا۔ اس مال کا چوکیدار جو دراصل اللّٰہ کی ملکیت ہے اور اسے اللّٰہ کے بتائے ہوئے طریقوں سے صرف کرتا ہے۔
ہم جو کچھ بھی حاصل کرتے ہیں اللّٰہ کی زمین ہی سے تو حاصل کرتے ہیں اور اس پر ہمارے حقوق صرف اسی حد تک ہوتے ہیں جو اللّٰہ نے مقرر کردیئے ہیں۔‘‘

Related posts

ضرورت اس بات کی تھی کہ زمین پر اترتے! جاوید اختر بھارتی

www.journeynews.in

رمضان المبارک کی فضیلت واہمیت

www.journeynews.in

اسکول و کالج میں پڑھنےوالےبچوں کی دینی تربیت عصرحاضرکی سب سےاہم ضرورت

www.journeynews.in