پہلے کہا جاتا تھا کہ دنیا گول ہے لیکن اب یہ کہنا چاہیے کہ دنیا مطلب پرست ہے ، دنیا مفاد پرست ہے جب تک مطلب اور مفاد ہوگا تب ایک دوسرے کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہوگا، گفتگو ، سلام کلام ہوگا، دعوت تواضع ہوگی خاطر داری ہوگی مطلب نکل جانے پر راستہ الگ الگ ، سلام کلام ایسا کہ کوئی ذائقہ نہیں ، کوئی مٹھاس نہیں ، کبھی مل بھی گئیے تو خلوص نہیں ، کبھی کچھ کھلا بھی دیا تو خوداری چھیننے کے بعد ، ہاتھوں پر دو کوڑی بھی رکھا ذلیل کرنے کے بعد اور بعد میں کبھی حال چال بھی لیا تو احسان جتانے کے بعد ،، غرضیکہ کہا جاتا ہے یہ زندگی ایسی ہے کہ کب کہاں زندگی کی شام ہوجائے یقیناً اس کہاوت میں سچائی ہے اور آگے یہ بھی کہنا چاہیے کہ کب کہاں کس کا مزاج بدل جائے کب کہاں کوئی شخص مفاد پرستی میں مبتلا ہو جائے اور خاندان ، پڑوس ، رشتہ دار ، دوست احباب کو بھلا بیٹھے تعلقات کے تمام مراحل کو بھلا بیٹھے ، سکوں کی جھنکار میں مست مگن ہو جائے۔
زید و بکر دو بھائی ہیں بچپن میں باپ ملک عدم کو راہی ہوجاتا ہے زید بڑا بھائی ہے اب وہ بکر کے ساتھ بھائی کا حق ادا کر رہا ہے اور ساتھ ہی باپ کا بھی حق نبھا رہا ہے خود محنت مزدوری کرتا ہے گھر کا خرچ چلاتا ہے اور چھوٹے بھائی بکر کو پڑھواتا ہے دل میں ارمان اور آنکھوں میں خواب سجایا ہے کہ چھوٹا بھائی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد کوئی اچھی سروس پا جائے گا تو ہمارے حالات بدل جائیں گے ہمارے گھر کو رونق میسر ہو جائے گی ۔
چھوٹے بھائی بکر کو اچھی مل گئی بڑی اچھی تنخواہ پانے لگا چلنے کے لئے کار بھی خرید لیا اب اس کو اپنے مکان میں گھٹن ہونے لگی گھر چھوٹا لگنے لگا بڑے بھائی کے ساتھ رہنے میں بے عزتی محسوس ہونے لگی آخر کار اس نے شہر میں ایک بنگلہ کرائے پر لے لیا بڑے بھائی سے بتائے بغیر اس نئے بنگلہ نما مکان میں رہنے لگا خود کو بہت اسٹینڈر بننے لگا بڑے بھائی کو اپنابھائی بتاتے ہوئے شرمانے لگا روزانہ صبح کو کار میں بیٹھتا اور آفس کے لئے چل دیتا اور شام کو کار میں بیٹھتا اور گھر آجاتا اسی طرح کئی سال گزر گئے۔
ایک دن دوپہر بعد ہی یعنی چھٹی ہونے سے پہلے ہی گھر کے لئے چل دیا اور ذہن میں بات آئی کہ ذرا آج پرانے گھر پر بھی ہو لیا جائے اور بھائی سے ملاقات کرلیا جائے دروازے پر دستک دی بڑا بھائی دروازہ کھولتا ہے چھوٹا بھائی بڑے تکبرانہ انداز میں گھر کے اندر داخل ہوتا ہے اور صوفے پر بیٹھتے ہی بڑے بھائی سے کہتا ہے ذرا ایک گلاس پانی لاؤ اتنے میں بڑے بھائی کی بیوی بھی آجاتی ہے اور وہی ایک گلاس پانی بھی لاتی ہے ساتھ کہتی ہے کہ بہت دنوں بعد آئے ہو میں کھانا بناتی ہوں کھاکر جانا چھوٹا بھائی بولتا ہے اس کی ضرورت نہیں میں آپ لوگوں کے گھر کا کھانا نہیں کھا سکتا میں کسی بڑے ہوٹل میں کھالوں گا تمہارے گھر کا کھانا کھاکر مجھے بیمار نہیں ہونا ہے یہ کہتے ہوئے اپنا بیگ اٹھاتا ہے اور چیک بک نکال کر ایک بڑی رقم تحریر کرکے بڑے بھائی کے ہاتھوں میں چیک تھماتے ہوئے کہتا ہے کہ گھٹ گھٹ کر جینے سے کیا فائدہ آج تک پچیس ہزار کی تنخواہ پاتے ہو دیکھو میرے پاس بنگلہ ہے کار ہے تم پچیس ہزار میں صرف خواب دیکھ سکتے ہو یہ چیک پکڑو اور کچھ دنوں تک عیش کرو تب معلوم ہوگا کہ دنیا میں جینے کا حق کس کو ہے میں اب چلتا ہوں ۔
ابھی کار میں بیٹھ کر کچھ ہی دور گیا تھا کہ راستے میں چائے پینے کے لئے گاڑی روکی اور چائے پی کر پیسہ دینے کے لئے چھوٹا نوٹ نہیں تھا اور دکاندار کے پاس کھلا پیسہ نہیں تھا سامنے ایک دکان اور نظر آئی اور وہاں سے سگریٹ خریدتا ہے وہاں پر بھی دینے کے لئے کھلے پیسے نہیں دکاندار پوچھتا ہے کہ کیا ہوا بھائی پیسے دو اور آگے بڑھو اور یہ مغرور شخص خاموش ہے دکاندار نے کہا کہ کھلے پیسے نہیں ہیں تو بتاؤ تمہیں کوئی جاننے والا ہے یہاں پر جو تمہاری ضمانت لے سکے اس نے کہا کہ یہاں تھوڑی دور پر فلاں آدمی کو جانتے ہیں تو دکاندار نے کہا کہ ان کو تو پورا علاقہ جانتا ہے تمہارا ان سے کیا تعلق ہے تو یہ شخص جواب دیتا ہے کہ ہیں تو وہ میرے بڑے بھائی مگر میری حیثیت کے آگے ان کی کوئی اوقات نہیں اس لئے مجھے بتانے میں شرم آتی ہے ۔
دکاندار نے کہا کہ تمہیں ان کو بڑا بھائی کہتے اور بتاتے ہوئے شرم آتی ہے جبکہ سچائی تو یہ ہے کہ ان کے آگے تمہاری کوئی حیثیت نہیں اور آج تم جو کچھ بھی ہو تو یہ انہیں کی دین ہے اور شاید تم ان کا دل دکھا کر آئے ہو اس لئے قدرت نے آج تمہیں اس موڑ پر لاکر کھڑا کردیا ہے کہ چائے اور سگریٹ کا پیسہ دینے کے لئے تمہارے پاس کھلا پیسہ نہیں ،، اتنے بڑا بھائی بھی آجاتا ہے اور سب کچھ اسے معلوم ہوجاتا ہے اور چھوٹے بھائی نے جو خریدا تھا اس کا پیسہ دیتا ہے اور گھر واپس ہو جاتا ہے جیسے ہی گھر پہنچتا ہے تو پیچھے سے چھوٹا بھائی بھی پہنچتا ہے اور گھر میں داخل ہوتے ہی پوچھتا ہے کہ کچھ کھانے کو ملے گا تو بڑے بھائی کی بیوی بولتی ہے ضرور ملے گا بیٹھئے میں ابھی کھانا لگاتی ہوں تھوڑی دیر میں دسترخوان لگتا ہے اور دونوں بھائی ایک ساتھ کھانا کھاتے ہیں چھوٹا بھائی بولتا ہے بڑے بھائی مجھے معاف کردیں میں دولت و شہرت حاصل کرنے میں آپ لوگوں کو بھلا دیا میرے اندر گھمنڈ آگیا لیکن ایک جھٹکے میں میری آنکھوں کی پٹی کھل گئی کہ میں تو آج بھی بڑے بھائی کا محتاج ہوں باپ کے مرنے کے بعد بڑے بھائی نے پڑھایا لکھایا پالا پوسا اور آج سب کچھ ہوتے ہوئے بھی بیچ راستے میں ناشتہ پانی کا پیسہ دینے کے لئے بڑے بھائی کی ہی ضرورت پڑی یہ کہتے ہوئے کھڑا ہوا اور بڑے بھائی کو گلے لگا کر خوب رویا تو بڑے بھائی نے کہا کہ چھوٹے ہم کل تجھ سے جتنا پیار کرتے تھے آج بھی اتنا ہی پیار کرتے ہیں چل تجھے اس بات کا احساس ہوگیا مجھے بیحد خوشی ہے کہ میرا چھوٹا بھائی مجھے مل گیا اور اب کبھی نہ چھوڑنا میرا ساتھ اب ہم ہمیشہ ساتھ ساتھ رہیں گے ۔
+++++++++++++++++++++++++++
جاوید اختر بھارتی ( سابق سکریٹری یوپی بنکر یونین)محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی
