ـــــ شاہد حبیب
ــــــ رات کے آخری پہر کا سکوت تھا، حرمِ مکہ کے میناروں سے اذانِ فجر کی آواز فضا میں گھل رہی تھی۔ آسمان پر کہکشاں کی جھلکیاں کسی نئی امید کی نوید دیتی محسوس ہو رہی تھیں۔ اسی گھڑی ایک ننھا سا وجود دنیا میں آیا۔ پورے گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ مولانا خیرالدین، جو عرب و ہند کے علوم کے ماہر تھے، بچے کو دیکھ کر دیر تک خاموش رہے۔ پھر آہستہ سے بولے، ”یہ بچہ علم کی شمع بنے گا، جس کی لو اندھیروں میں راستہ دکھائے گی۔“
مکہ کی فضا میں علم و روحانیت کی خوشبو رچی بسی تھی۔ ننھا بچہ قرآن کی آیات سنتا، عربی بولیوں کی دھن پر پلتااور دانا والد کے درس و تدریس کی محفلوںمیں علم کی فضا کو سانسوں میں جذب کرتا ۔ لیکن تقدیر نے اسے صرف مکہ تک محدود نہیں رہنے دیا۔ زمانے کے رخ نے ایک نیا موڑ لیا، خاندان ہجرت کر کے ہندوستان آ یا اورکلکتہ میں بودوباش اختیار کیا۔ اسی کلکتہ کی شوریدہ گلیوں میں آزاد کا شعور جاگا، جہاں اس نے پہلی بار ”قید کی آزادی“ اور ”آزادی کی قید“کے مفہوم کو سمجھا۔ حالانکہ کلکتہ ایک شہر نہیں، ایک شور تھا۔ سمندری ہوا میں تجارت کی باس بھی تھی اور انقلاب کی سوندھی خوشبو بھی۔ انگریز حاکموں کے جوتوں تلے دبے ہوئے ہندوستانی خواب اب ہلنے لگے تھے اور انہی خوابوں کے بیچ یہ کم عمر لڑکا، خاموشی سے اپنی دنیا بسانے میں مصروف تھا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستانی مسلمان دو انتہاؤں کے بیچ جھول رہے تھے۔ ایک طرف ماضی کا فخر، دوسری طرف حال کی بے بسی۔ اس بچے کی نگاہ ان دونوں کے بیچ اٹکی ہوئی تھی۔ بچے کے والد مولانا خیرالدین نے انھیں عربی و فارسی کی درسگاہوں میں بٹھایا، جہاں وہ قرآن و تفسیر، حدیث و فقہ کے دریا سے سیراب ہوا۔ لیکن ان کی آنکھیں کہیں اور جھانکتی رہتیں۔ کتابوں کے صفحوں سے پرے، وہ زمانے کے بدلتے ہوئے چہرے کو پڑھنا چاہتا تھا۔ علم نے ان کے لیے دروازے کھولے، لیکن عقل نے ان دروازوں کے باہر کی دنیا انھیں دکھائی۔ بچے کے ہاتھوں میں جب ”رسائلِ مصر و شام“ ، ”العروۃ الوثقیٰ“، ” المنار“ اور ”الہلالِ مصر“ جیسی کتابیں پہنچیں تو ان کے اندر کے مولوی کو کسی نے جھنجھوڑ دیا۔ وہ سوچنے لگا کہ اسلام کی اصل روح ماضی کے قصوں میں نہیں،بلکہ انسان کی آزادی، مساوات اور علم کے فروغ میں ہے۔ اس شعور کے ساتھ اب وہ بچہ صرف ایک شخص نہیں رہا بلکہ ایک نظریہ بن گیا۔ وہ کہنے لگا قوموں کی زبوں حالی کا سبب خدا کی قضا نہیں، انسان کی اپنی تن آسانی اور کم فہمی ہے۔ جلد ہی انھوں نے اپنے قلم کو انقلاب کا ہتھیار بنا لیا۔ ”الہلال“اور پھر ”البلاغ“ کے صفحات پر ان کی تحریریں بجلی بن کر گرنے لگیں۔انگریز حکومت لرز نے لگی اور نوجوانوں کے دلوں میں آگ دہک اٹھی۔ ان کے الفاظ میں علم کا جلال بھی تھا اور ایمان کا جمال بھی۔ اس اثناء میں وہ بچہ کلکتے میں آزاد کے نام سے شہرت پا نے لگا۔ اسی کلکتہ میں اس نوعمر نے مولانا محمد علی، شوکت علی اور مہاتما گاندھی جیسے انقلابی رہنماؤں سے رشتہِ فکر قائم کیا۔ یہ تعلق صرف سیاست تک محدود نہیں رہا،بلکہ روح کی بیداری کے رشتے میں مدغم ہوتا چلا گیا۔ اس بچے نےنوعمری کے دور سے گزر کر مولانا آزاد کی شناخت کے ساتھ فراست و دانائی کا دریا بہانا شروع کیا، حکمت کا ثبوت پیش کیا اور کہا:
” غلامی کے خلاف صرف تلوار سے نہیں، بلکہ شعورو دانائی کے ساتھ لڑنا ہوگا۔“
لیکن شعور کی یہ آگ زیادہ دیر حکومتِ برطانیہ کو برداشت نہ ہوئی۔ ”الہلال“پر پابندی لگی ۔ آزاد نے پینترا بدلا اور ”البلاغ“ جاری کیا تو اسے بھی بند کر دیا گیا۔ آزاد کی زبان خاموش کی گئی، مگر ان کے قلم نے ایک نیا سفر شروع کردیا، جیل کی دیواروں کے اندرعلم و تدبرکی ترسیل کا سفر۔ پہلے رانچی میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ وہاں سے رہائی ملی تو پھر” بنتی نہیں ہے بات بادہ و ساغر کہے بغیر“ کے مصداق پھر سے انگریزوں کے خلاف شمشیر بے نیام بن گئے۔ اس شمشیر کی دھار کو تند کرنے کے لیے انگریزوں نے انھیں سخت سزائیں دیں اور کال کوٹھری میں بند کر دیا۔
دن ڈھل رہا تھا۔ قلعہ احمد نگر کی اونچی فصیلوںسے سورج کی آخری کرنیں قیدیوں کے چہروں پر پڑ رہی تھیں۔ ہوا میں جیل کی باسی بو تھی، مگر کہیں نہ کہیں ذہن کی فضا بڑی تازہ لگتی تھی۔ کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ کچھ روحیں قید خانوں میں بھی آزاد ہی رہتی ہیں۔ مولانا آزاد کے پاس نہ کاغذ تھا، نہ کتابوں کے ڈھیرلیکن ان کے ذہن میں پورا ایک جہان آباد تھا۔ ان کے سامنے خاموش دیواریں تھیں مگر وہ دیواریں ان سے گفتگو کرنے لگیں۔ دیواروں کے اس مکالمے سے ”غبارِ خاطر“نے جنم لیا۔جس میں قید کا دکھ نہیں، بلکہ روح کی آزادی کا بیان ہے۔ان خطوط میں چائے کے ذائقے سے لے کر فلسفۂ کائنات تک،پرندوں کی اڑان سے لے کر انسان کے ارتقا تک ،سب کچھ ایسے بیان ہوتا ہے جیسے کوئی درویش، کسی آسمانی مجلس میں گفتگو کر رہا ہو۔ آزاد اپنی تنہائی کو تنقید کے بجائے ”تفکر“ کا موقع سمجھنے لگے۔یوںان کے الفاظ میں صبر نہیں، یقین بسنے لگا۔ وہ کہتے ،”دنیا کی کوئی طاقت انسان کی روح کو قید نہیں کر سکتی، اگر وہ خود آزاد رہنے پر اصرار کرے۔“ وہ جیل میں تھے، مگر ان کے خیالات ”کائنات کے مدار“ میں گردش کر نے لگے۔وہ مذہب کی قید میں نہیں، ایمان کی آزادی میں یقین رکھتے تھے توان کا قلم ”توحید“ کو سیاست، ”روحانیت“کو انسانیت،اور ”آزادی“کو اخلاق کے دائرے میں لے آیا۔ اس طرح ”غبارِ خاطر“کے ہر صفحے پر ایک خاموش موسیقی بکھرنے لگی ،جس میں عقل کا ساز بھی ہے، محبت کی لے بھی۔ یہ وہی آزاد تھے جو کلکتہ کی ناخدا مسجد کے خطیب ِشعلہ بیاں تھے اور ملک کی آزادی کے ہنگاموں میں ایک انقلابی مقرر تھے، مگر اب قلعے کی تنہائی میں ایک فلسفی، ایک صوفی، ایک عاشقِ علم بن گئے تھے۔قید سے نکلنے کی انھیںجلدی نہیں تھی،کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کے خیالات کو کوئی زنجیر نہیں باندھ سکتی۔ قلعہ احمد نگر ان کے لیے جیل نہیں،ایک درسگاہ بن گیا جہاں وہ انسانیت، ایمان اور عقلِ محض کا سبق پڑھا رہے تھے۔یوں قلعہ احمد نگر کے سنسان کمروں میں بیٹھ کر غبارِ خاطر کے طور پر سیاہ کیے گئے یہ صفحات علم و فکر کے مصدر سمجھے گئے اور اردو ادب کا شاہکار بنے۔
قلعہ احمد نگر کی دیواروں سے نکل کر جب آزاد نے آزادی کی فضا میں سانس لی،تو ایسا لگا جیسے ہندوستان کی روح قید سے رہا ہوئی ہو۔ان کے چہرے پر ایک گہری تھکن تھی مگر نگاہوں میں عزم کی چمک باقی تھی ،وہی چمک جو کبھی کلکتہ کی گلیوں میں گونجتی تھی،جو کبھی ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ کے صفحات پر روشنی بن کر بکھرتی تھی۔اب ان ہی کو سننے کے لیے دہلی کی جامع مسجد کے وسیع صحن میں لوگ امڈ آئے تھے۔ فضا میں اذان کی آواز اور آزادی کی سرگوشیاں گھل رہی تھیں۔مولانا آزاد منبر پر کھڑے ہوئے،وہ منبر جس نے کبھی شاہجہاں کا جلال دیکھا تھا،اب اس پر ”قوم کے فکری رہنما“کا وقار ایستادہ تھا۔انھوں نے کہا،لوگو! آزادی کا مطلب صرف انگریزوں کے جانے کا نام نہیں،بلکہ دلوں سے خوف کے پردے اٹھانے کابھی نام ہے۔ یہ ہمارا امتحان ہے کہ ہم اپنے ضمیر کو کس طرح آزاد رکھتے ہیں۔قوم نے ان کی باتوں کو غور سے سنا اور ہندوستان کی تعمیر میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ آزاد نےقوم کے جذبات کو درست سمت دیتے ہوئے کہا کہ اسلام کا پیغام عدل و محبت ہے، تفرقہ و نفرت نہیں۔ ان کا خطاب اس قدر پر اثر تھا کہ وہ ہجوم کو ایک امت،ایک ملت، ایک انسانیت کے احساس میں بدلنےپر مجبور کر گیا ۔یہی وہ لمحہ تھا جب مولانا آزاد صرف ایک مذہبی رہنما نہیں بلکہ ایک ”قوم ساز مفکر“کے طور پر پہچانے گئے۔
پندرہ اگست 1947کا تاریخی دن آیا ،ہندوستان آزاد ہوا۔نئی حکومت بن رہی تھی۔پنڈت جواہر لال نہرو نے مولانا آزاد کو پہلا وزیرِ تعلیم مقرر کیاتو یہ صرف ایک سیاسی فیصلہ نہیںتھا، بلکہ علم کی حکمرانی کا اعلان تھا۔ مولانا آزاد نے وزارتِ تعلیم کا قلمدان سنبھالا۔ قوم کی نشاۃ ثانیہ کا نصب العین ان کے سامنے تھاکہ ”قوموں کی تعمیر توپوں سے نہیں، کتابوں سے ہوتی ہے۔“ چنانچہ انھوں نے ہندوستان کے تعلیمی مستقبل کی بنیاد رکھی ،ان کے وژن نے خواب کو خاکہ دیا۔ان کے دور میں کئی تاریخ ساز ادارے قائم ہوئے۔یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (UGC)، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (IITs)،سینٹرل انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن ،ساہتیہ اکیڈمی، للت کلا اکیڈمی، سنگیت ناٹک اکیڈمی جیسے ادارے ان ہی کے ذہن کی پیداوار ہیں۔ انھوں نے تعلیم کو مذہب سے نہیں، ترقی سے جوڑا۔ ان کے نزدیک اسکول کی حیثیت عبادت گاہ کی تھی،جہاں عقل و وجدان کی تربیت ساتھ ساتھ ہوتی ہے۔ وہ کہا کرتے تھے، اگر ہم آنے والی نسلوں کو کتاب اور سوال کی اہمیت نہیں سکھا سکے، تو ہماری آزادی ادھوری رہے گی۔ان کے دفتر میں ہمیشہ کتابوں کی خوشبو محسوس کی گئی،قلم کی سیاہی ان کے لباس پر لگ جاتی تو وہ مسکرا کر کہتے،یہ سیاہی میری وزارت کا تمغہ ہے۔
وقت گزرتا گیا ،قوم ترقی کرتی گئی، مگر اس مردِ دانا کی صحت کمزور ہونے لگی۔1958کی ایک شام دہلی کی فضا میں اداسی چھا گئی ، جب علم، ایمان اور انسانیت کا ایک چراغ بجھنے لگا۔لاکھوں سوگواروں کی موجودگی میں علم و حکمت کے اس چراغ کا جنازہ جامع مسجد دہلی کے احاطے میں اٹھا۔ وہی جامع مسجد جہاں سے انھوں نے آزادی اور اتحاد کا پیغام دیا تھا۔ اب وہی مسجد ان کی آخری آرام گاہ بن رہی تھی۔جب ان کی میت قبر میں اتاری گئی تو لوگوں کی آنکھوں میں آنسو تھے،لیکن ایک روشنی بھی تھی کیونکہ انہیں احساس تھا کہ ایک جسم گیا ہےمگر اس عہدساز کی روشنی ہمیشہ باقی رہےگی۔دہلی کی فضامیں آج بھی اس مردِ آزادکے علم وحکمت کی روشنی، لہجے کی نرمی اور فکر کی گہرائی محسوس ہوتی ہے۔جامع مسجد کے آنگن میں جب اذان کی صدا گونجتی ہے تو لگتا ہےکہ کہیں نہ کہیں آزاد کی روح اب بھی یہی کہہ رہی ہے، ”قوموں کی بقا کتابوں میں ہےاور کتاب کی بقا قاری میں۔اگر علم زندہ ہے تو میں بھی زندہ ہوں، میری روشنی کو تم کتابوں میں تلاش کرو۔“ ٭٭٭
روشنی جو قید نہ ہوئی ـــــ شاہد حبیب
Dr. SHAHID HABIB
Assistant Editor, Publication Division, NCERT,
Sri Aurobindo Marg, New Delhi – 110016
Mob. +91 8539054888
