شری کرشن سریواستو کے دو خطاب کا بڑا چرچا ہے، دونوں علامہ اقبال سے متعلق ہیں، ایک کا عنوان ہے، علامہ اقبال کی بھارت مخالف شاعری اور دوسرے کا عنوان ہے، بھارت کی تقسیم میں علامہ اقبال کا کردار،
ان دونوں خطاب میں اقبال کے بہانے اسلام اور مسلمانوں، علماء، رومیلا تھاپر، پروفیسر حبیب، عرفان حبیب، جیسے بہت سے معروف مورخین، دانشوروں، جامعہ ملیہ اسلامیہ، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، سر سید وغیرہم کو بھی نشانہ بناتے ہوئے، اکثریتی سماج میں نفرت و اشتعال کو پیدا کرنے اور بڑھانے کا کام کیا گیا ہے، حتی کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے اور اقبال نے بے خبری کی بنا۶ پر بالکل غلط کہا ہے کہ رام امام ہند ہیں، جب کہ اکثر ملا مولوی تو ان کو شیطان قرار دیتے ہیں، لگے ہاتھوں سریواستو صاحب نے اقبال کو فرقہ پرست اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا مخالف بھی بتا دیا ہے،
واقعہ تو یہ ہے کہ اقبال ہندوتو وادی فرقہ پرستی اور مسلم لیگ کی فرقہ پرستی دونوں کے بیچ پستے رہے ہیں ایک نے اقبال کو ہند اور ہندو مخالف سے لے کر غیر مسلموں عیسائیوں، یہودیوں کے معاملے میں جارح فرقہ پرست کے روپ میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے تو دوسرے نے اقبال کو مسلم قومیت کا ایک خاص طرح کا حامی بنا کر پیش کیا ہے، یہ سلسلہ ملک کی آزادی سے پہلے سے ہی جاری ہو گیا تھا اور آزادی کے بعد سے اب تک مختلف شکلوں میں جاری ہے، گزشتہ دنوں دہلی یونیورسٹی نے بھی اس کا عملی ثبوت، نصاب سے باہر کر کے دیا ہے، اس کا مطلب ہے کہ اقبال آج بھی سامنے کھڑے نظر آتے ہیں، اس سے جہاں اقبال کی اہمیت و معنویت ثابت ہوتی ہے، وہیں ان کی شعری و نثری تخلیقات کے اثرات کا بھی اندازہ ہوتا ہے، کسی کی شدت سے مخالفت بھی اس کے جی دار ہونے کا ثبوت ہوتا ہے، اقبال پر بہت سے بے جا اعتراضات و سوالات کی جڑ میں بے بنیاد معاندت کا بھی دخل ہے، ان کے شعری رموز و علائم کو بہتر طور سے نہ سمجھنے یا ان کے افکار و خیالات کو منظر پس منظر کاٹ کر دیکھنے کا عمل کار فرما ہے، پاکستانی دانشوروں اور مورخوں نے نہ صرف اقبال کو پاکستان کے وجود کی تشکیل کی راہ ہموار کرنے والا قرار دینے کی غیر تاریخی اور خلاف دیانت سعی کی ہے بلکہ سر سید اور بہت آگے جا کر محمد بن قاسم، شیخ احمد سر ہندی رح، شاہ ولی اللہ دہلوی رح وغیرہم تک کو دو قومی نظریہ کے تحت پاکستان کا اصل محرک باور کرانے کی کوشش ہے، جب کہ فرقہ پرست ہندوتو وادیوں نے مذکورہ دعوے کی مختلف طریقوں سے تائید و تصدیق کر کے غیر تاریخی کام کرنے کے ساتھ ایک الگ قسم کی بد دیانتی و ناسمجھی کا ثبوت دیا ہے اور فرقہ وارانہ ذہنیت کے زیر اثر ہندستان کی بہت سی عظیم شخصیات کو پاکستانی فرقہ پرستوں کی جھولی میں ڈال دینے کا کام کیا ہے مطلب یہ ہے کہ ایک فرقہ پرست دوسرے فرقہ پرست کے ساتھ ہمیشہ تعاون و اشتراک کرتا ہے، اس باہمی تعاون و اشتراک سے دونوں کا کار و بار حیات فروغ و پروان چڑھتا ہے
یہ کون واقف حال نہیں جانتا ہے کہ سر سید تو کیا اقبال بھی قرار داد لاہور منظور ہونے اور تقسیم ہند کی تجویز پیش ہونے سے پہلے ہی رحلت کر چکے تھے ،اقبال یقینا مسلم لیگ کے ساتھ تھے اور بہت سے معاملات و مسائل میں اس کی حمایت کرتے رہے تھے، ان کو بھی یہ شدت سے احساس تھا کہ اگر مسلم ملت اور اس کے مسائل کے سلسلے میں ہندو اکثریت کی قیادت پر کلی انحصار و اعتماد کیا گیا تو اس کی ممتاز شناخت اور وجود، ہندو اکثریت میں تحلیل ہو کر رہ جائے گا اس کے پیش نظر یہ ضروری ہے کہ کانگریس سے الگ ایک سیاسی پارٹی کے تحت جدوجہد کی جائے حتی کہ بھارت کے اندر بھی مسلم اکثریت والے خطے میں ایسے خود مختار صوبے کی تشکیل کی جائے، جس میں مسلمان اپنے نظریہ و آرزو کے مطابق زندگی گزار سکیں اس کو بعد کے دنوں میں خطبہ الہ آباد کے نام پر پاکستان تحریک کے حامی دانشوروں اور مبینہ ماہرین اقبالیات نے کچھ اور ہی رنگ میں پیش کیا ہے، جب کہ اقبال نے بھارت کے وفاقی ڈھانچے میں ایک ایسے مسلم صوبے کی تجویز پیش کی تھی جس میں صوبے، داخلی طور پر خود مختار ہوتے ہیں، اس طرح کی تجویز کا تعلق لازما تقسیم وطن سے نہیں ہو سکتا ہے اس کو علیحدہ ملک اور تقسیم ہندکے معنی میں لینا سراسر زیادتی اور غلط فکر و عمل ہے، پاکستانی تحریک کے حامیوں کی راہ پر جا کر سریواستو صاحب نے بھی اقبال کے ساتھ ناانصافی کی ہے، انھوں نے اپنے خطاب میں اعتراف کیا ہے کہ وہ اردو، فارسی نہیں جانتے اس کے باوجود ایک خاص طنطنے اور اعتماد سے اقبال کو ایک الگ رنگ میں پیش کیا ہے ،محنت کر کے تلفظ اور شعروں کی خواندگی کل ملا کر ٹھیک ٹھاک ہے، تاہم شعروں کے افہام و تفہیم میں خاصی خامیاں و کمیاں نظر آتی ہیں، انھوں نے اقبال کے مثبت و ہمدردانہ روپے کو بھی منفی و غیر ہمدردانہ رنگ میں پیش کیا ہے اور موجودہ فرقہ وارانہ ماحول کو تقویت پہنچانے کی کوشش کی ہے، اپنے مفروضہ تعبیرات و معانی پیش کر کے حقائق کا بے دریغ قتل کیا ہے ہندوتو وادی نظریہ و عمل میں اصلا آفاقیت نہیں ہے لیکن وشو ہندو پریشد جیسی عالمی عنوان سے تنظیمیں بنیں اور مسلسل بن رہی ہیں، پہلے بھارت کے سوا دیگر ممالک میں ہندو نہیں کے برابر پائے جاتے تھے لیکن تقسیم ہند اور بعد کے دنوں میں دیگر ممالک میں بھی پائے جانے والے ہندوؤں سے کمیونٹی کی حیثیت سے تعلقات کا اظہار کیا جاُتا رہتا ہے، یہ غلط بھی نہیں ہے جیسا کہ بنگلہ دیش کی ہندو اقلیت سے متعلق کیا جا رہا ہے، یہ ہونا چاہیے اسلامی نظریہ امت و انسانیت کے تحت پہلے ہی سے مسلم ملت، ملی و انسانی جذبے سے آفاقی و عالمی تعلقات کا اظہار کرتی رہی ہے، یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ شری کرشن سریواستو صاحب، فرقہ پرستی سے متاثر ہونے کے سبب نافہمی کے شکار ہیں، وہ اقبال کے سہارے و بہانے سے ہندستانی علماء و مسلمانوں پر حملہ کرتے ہوئے ان کی شبیہ کو مکروہ شکل میں کر رہے ہیں، انھوں نے ان پر یہ جھوٹا الزام لگایا ہے کہ زیادہ تر علماء رام کو شیطان قرار دیتے ہیں اور بھارت کے مسلمان آج بھی ہندستان کو اپنا وطن نہیں مانتے ہیں، سریواستو صاحب یہ بھی کہتے ہیں کہ اقبال نے رام کو امام ہند قرار دے کر بڑی بے خبری کا ثبوت دیا ہے، ہندو تو رام سراپا پار برہم، پرم پرمیشور مانتے ہیں، اسلام کی زبان میں اگر اللہ اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ملا دیا جائے تو رام جیسا ہوگا، مسلمانوں نے اتنے دنوں تک بھارت میں حکومت کرنے کے باوجود یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ ہندو رام کو کیا مانتے ہیں، دوسروں نے بھی مسلمانوں کو بتانے کی زحمت نہیں کی ، رام نہ تو امام ہیں اور نہ پیغمبر، پہلی بات تو یہ ہے کہ اقبال اور مسلمانوں نے اپنی صحیح سمجھ کے مطابق رام کو پیش کیا ہے، اس سلسلے میں عقیدہ شرک میں مبتلا ہندوؤں سے مسلمانوں کو رہ نمائی لینے کی ضرورت بھی نہیں ہے، سریواستو صاحب نے اکھلیش یادو اور راجا بھیا کے اقبال کے شعر،
ہے رام کے وجود پہ ہندوستان کو ناز
اہل نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ہند
پیش کرنے پر تنقید کی ہے،
اس کا مطلب ہے کہ سریواستو صاحب نے بھارت، اس کے اصل افکار و روایات اسلام اور مسلمانوں، علماء، اقبال، کسی کو بھی سنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش نہیں کی ہے بلکہ سطحی طریقے سے ان کو بہتر طور نہ سمجھنے والے ہندو سماج کے افراد کو گمراہ کر کے فرقہ وارانہ نفرت و دوری پیدا کرنے کا کام کیا ہے، کبیر، گرو نانک، ریداس، راجا رام موہن رائے، گاندھی جی سوامی دیانند، آریا سماجی وغیرہم بھی، شرک کے زیر اثر افراد کی طرح رام چندر کو نہیں مانتے رہے ہیں، اصل رامائن کے شاعر والمیکی نے بھی عام تصور کے برعکس رام چندر کو پیش کیا ہے، ہندو مسلم معروف و عظیم شخصیات کے حوالے و بہانے سے اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی کوششوں کی مزاحمت، وقت کی ایک بڑی ضرورت ہے، اقبال یا دیگر شخصیات کے نقاط نظر سے علمی و سنجیدہ اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ان کو غلط رنگ میں پیش کر کے ملک میں فرقہ وارانہ نفرت و دوری پیدا کرنے کی چھوٹ نہیں دی جا سکتی ہے ،نتیجہ خیز بحث و گفتگو کر کے ایمانداری سے حقائق کو سامنے لانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، تاکہ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ ملے اور فرقہ پرستی کے خاتمے کی راہ ہموار ہو،
previous post