ذاکرحسین
آعظم گڑھ،13 جون (نامہ نگار) بد قسمتی یا بیداری کا فقدان کہیں کہ ہمارے ملک میں وقت پر خون نہ ملنے کی وجہ سے ہر سال ہزاروں
لوگ موت کے منھ میں چلے جاتے ہیں۔اتر پردیش کے آعظم گڑھ میں پیدا ہونے والے ذاکر حسین نہ صرف ملک میں خون کی قلت کے اس سنگین مسئلے کو سمجھتے ہیں بلکہ اس سے نمٹنے کے لیے زمینی سطح کام بھی کام کر رہے ہیں۔وہ فون کے ذریعہ لوگوں تک پہنچتے ہیں اور خون کا مفت بندوبست کرتے ہیں۔وہ لوگوں کو خون عطیہ کی اہمیت بتاتے ہیں ۔
یہ کہانی صحافی ذاکر حسین کی ہے،جو پچھلے ساڑھے چار سالوں سے خون عطیہ کو لیکر بیداری مہم چلا رہے ہیں اور اپنے ساتھیوں کی مدد سے اب تک 540 سے زائد افراد کو مفت میں ہزاروں یونٹس خون پہنچاچکے ہیں۔میڈیا کے ساتھ خصوصی بات چیت میں ذاکر نے اب تک کے اپنے سفر کی داستان شیئر کی۔گفتگو شروع کرتے ہوئے ذاکر کہتے ہیں، ” بھائی صاحب یہ سال 2016 تھا۔ میرے دوست صلاح الدین کی بیوی پیٹ سے تھیں، علاج کے دوران انہیں ‘O ‘ نیگیٹو خون کی ضرورت تھی۔میرے دوست اور اس کے اہل خانہ نے سخت کوشش کی ، لیکن وہ خون کا بندوبست نہیں کرسکے۔انہوں نے لوگوں سے مدد کے لئے بھی اپیل کی،لیکن کوئی بھی خون دینے کے لئے آگے نہیں آیا. آخیر میں خون نہ ملنے کی وجہ سے ان کی کی سانسیں رک گئی۔اس واقعے نے مجھے اندر سے ہلا کر رکھ دیا ۔ ”وہ واقعہ جس نے ذاکر کی زندگی بدل دی
"صلاح الدین میرے دوست ہیں.”ان کے اور ان کے اہل خانہ کے درد نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ اب نہ صرف میں خود ضرورت مندوں کو خون عطیہ کروں گا،بلکہ دوسروں کو بھی اس کی راہ دکھاؤں گا۔یہ دن تھا اور آج کا دن ہے۔اب میرے ساتھ خون دینے والے نوجوانوں کی ایک بڑی فوج سرگرم ہے۔اب تک ہم نے 540 سے زیادہ لوگوں کو خون پہنچایا ہے ۔ ”29 سالہ ذاکر جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے طالب علم تھے، دہلی میں رہتے ہوئے انہوں نے خون عطیہ کرنے کا ایک گروپ تشکیل دیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں تک پہنچے۔ 28 ستمبر 2019 کو انہوں نے اپنا الفلاح فاؤنڈیشن (خون عطیہ گروپ )شروع کیا۔ابتدائی دنوں میں ضیاءخالد، مرزا تابش اکھلیش موریا ،عادل اور ندیم وغیرہ ان کی ٹیم کا حصہ تھے ۔ آہستہ آہستہ لوگ گروپ میں شامل ہوئے اور اب ان کے گروپ کے تقریبا ہزاروں نوجوان شامل ہیں،جو اتر پردیش اور ملک کے دارالحکومت دہلی میں سرگرم ہیں ۔
‘ساجد صاحب’ اور بہن انجم نے ہر راستے پر ساتھ دیا’
یہاں تک کا سفر ذاکر کے لئے آسان نہیں تھا.2021 میں ان کے والد کی موت کے بعد ، گھر کی پوری ذمہ داری ان کے کندھوں پر آگئی۔انہیں اپنی بوڑھی ماں کی دیکھ بھال کے لئے دہلی سے آعظم گڑھ واپس جانا پڑا۔ ایک لمحے کے لئے ذاکر نے محسوس کیا کہ وہ اپنی خون عطیہ کی مہم کو آگے نہیں بڑھا سکیں گے۔لیکن بھائ ساجد صاحب اور بہن انجم ایک بار پھر ان کا سہارا بنے۔انہوں نے ہر قدم پر ذاکر کا تعاون کیا اور انہیں آگے بڑھنے کی ترغیب دی ۔اس کے نتیجے میں ذاکر آگے بڑھے اور اب پورے خطے کی پہچان بن چکے ہیں۔اپنی جدوجہد کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے ، ذاکر نے کچھ بڑے واقعات کا ذکر کیا۔ذاکر کا کہنا ہے کہ ایک بار جب وہ کسی عورت کی مدد کے لئے اسپتال پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ عورت 1 ، 2 اور 5 کے سکے گن رہی یے اور انہیں بطور فیس ڈاکٹر کے حوالے کررہی ہے۔اسی طرح ایک مقامی رہنما نے فون پر روتے ہوئے کہا تھا کہ اگر وقت پر مریض کو خون مہیا نہ کیا گیا تو مریض اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ذاتی زندگی متاثر ہوئی،لیکن پیچھے نہیں ہٹے
گفتگو کے اختتام پر ، ذاکر نے کہا کہ ان کی ذاتی زندگی اکثر لوگوں کی مدد کرنے کے معاملے سے متاثر ہوتی ہے۔کئی بار انہیں کسی کی جان بچانے کے لیے اپنی بیوی اور بچے کو بیماری کی حالت میں چھوڑنا پڑا۔تاہم انہوں نے کبھی ہار نہیں مانی۔ وہ خوش ہیں کہ وہ اپنے والد محمد حسین مرحوم کے راستے پر چل رہے ہیں۔جس طرح دوسروں کی مدد کرنا ان کے والد کے لئے سب سے اہم تھا،اسی طرح اس کے لئے دوسروں کے لیے خون کا بندوبست کرنا بھی اولین ترجیح ہے۔وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنی مہم سے جوڑنا چاہتے ہیں، تاکہ ملک میں خون کی قلت ختم ہو جائے اور خون کی کمی سے کسی کو اپنی جان نہ گنوانی پڑے۔