جرائم کی دنیا اب بےحد وسیع ہوچکی ہے۔ جب گھروں میں صرف لینڈ لائن فون ہوا کرتا تھا اور کمپیوٹر و موبائل سے ہم نابلد تھے تو معاشرے میں جرائم کی شرح کسی حد تک محدود تھی۔ البتہ سنیما کے عروج سے بڑے پردے پر بلیک میلنگ اور چوری ڈکیتی وغیرہ کی وارداتیں دیکھنے کو ملتی تھیں۔ عام طور پر جرائم کی دنیا کے افراد ہی اس طرح کی وارداتوں کو انجام دیا کرتے تھے۔ معصوم بچّے کی شرح آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ لیکن امریکہ اور بعض یوروپی ممالک میں اسکول میں پڑھنے والے بعض بچوں کی ایسی خبریں گزشتہ تقریباً تین دہائیوں سے آرہی تھیں کہ انہوں نے اپنے اسکول بیگ میں اپنے گھر سے گن (Gun) چھپاکر لے گئے اور اپنے ہی ہم جماعت بچّوں کو گولیوں کا نشانہ بنادیا۔ وہاں کی تہذیب کے پس منظر میں نابالغ بچوں کا جرائم کی طرف رجحان عجوبہ نہیں ہے۔ جب ٹیلی ویژن کی دنیا میں انقلاب برپا ہوا تو اسپائڈر مین (Spiderman) سیریئل دیکھ کر بچوں کے خام ذہن میں بھی اونچی عمارتوں سے چھلانگ لگانے کا جذبہ پرورش پانے لگا۔ اس وقت ملیشیا (پینانگ) کے ایک اخبار Konsumer نے بچوں کے ذریعے رونما ہونے والے بعض ہولناک واقعات کی تفتیشی و تجزیاتی رپورٹ بھی شائع کی تھی۔ اسی طرح گھر گھر ٹی وی کی وجہ سے نابالغ بچوں کے قبل از وقت جنسی طور پر فعال (Active) ہونے سے تعلیمی اداروں میں بالخصوص شرمناک واقعات کی خبریں بھی عام ہونے لگیں۔ اسی وجہ سے ملک کے بعض حلقوں میں Co-education کی مخالفت ہونے لگی۔
ہندی روزنامہ ہندوستان (26 نومبر 2023) میں محترمہ شروتی بھٹ کی نابالغ بچوں میں سائبر کرائم (Cyber Crime) کے رجحان پر ایک تحقیقی و تفتیشی رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ اس رپورٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا کے 70 فیصد سائبر کرائم کے مرتکب نابالغ بچے ہو رہے ہیں۔ شروتی بھٹ نے چند نابالغ بچوں کے جرائم کو بطور ثبوت پیش کیا ہے۔ دھنباد (جھارکھنڈ) کے ایک بچے نے بینک اہل کار بن کر ایک پولیس والے سے پندرہ لاکھ روپے آن لائن ٹھگ لیے۔ اسی طرح دلّی کے چند بچوں کو اس وقت پکڑا گیا جب وہ فلیٹ خریدنے کے نام پر خریدار سے رقم اپنے نام اکائونٹ میں ٹرانسفر کرالیتے تھے۔ ایک انوکھے معاملے میں ایک بچّے نے اپنے والد کے اکائونٹ سے لاکھوں روپے نکالے اور خرچ کردیے لیکن ان کے والدین کو بھنک تک نہیں لگی۔ ایسا اس لیے ہوا کہ اس نے اپنے والد کا موبائل فون ہیک (hack) کر رکھا تھا جس سے لین دین کا ان کو پتہ ہی نہ چلا۔ نابالغ بچوں کے ذریعے کیے گئے سائبر کرائم کے یہ چند نمونے ہیں۔ شروتی بھٹ نے لکھا ہے کہ حال ہی میں نیدرلینڈ کا ایک بچہ ڈارک ویب (Dark Web) کی مدد سے AK-47 خریدنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس سلسلے میں امریکہ کے ایل اسکول آف میڈیسن (Yale School of Medicine) میں بچوں کی نفسیات کے ماہر ڈاکٹر کائل ڈی پوئٹ کا کہنا ہے کہ عمر رسیدہ افراد کے مقابلے میں بچوں میں توانائی (energy) زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے ان میں تجسس کا مادہ بہت ہوتا ہے اور وہ نئی کھوج کی طرف تیزی سے اپنا ذہن مرکوز کرتے ہیں۔
شروتی بھٹ کی یہ تحقیقی رپورٹ والدین کے لیے بڑے خطرے کی علامت ہے۔ موبائل اور انٹرنیٹ کے اس عہد میں تیزی سے نئی نئی دریافت بھی ہورہی ہے۔ غیر معمولی ایپس (Apps) کو ڈائون لوڈ کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے۔ یہ خطرہ اس وقت زیادہ بڑھ جاتا ہے جب عمر رسیدہ والدین کو یہ کہتے سنا جاتا ہے کہ وہ ٹھیک سے موبائل بھی آپریٹ نہیں کرسکتے۔ لیکن نئی نسل کے والدین بہرحال ناواقف نہیں۔ وہ بچوں کے سر پر منڈرانے والے ان خطرات کو بلاشبہ محسوس ہی نہیں بلکہ مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ بچوں میں گیمنگ یا چیٹنگ (Gaming or Chating)کے نام پر تنہا رہنے کا رجحان پنپ رہا ہے۔ گروپ میں بیٹھنے سے بچے کترانے لگے ہیں۔ والدین کے بلانے پر وہ جلد والدین کے پاس نہیں آتے۔ ان کے مزاج میں غصے کا مادہ بھی زیادہ محسوس ہونے لگا ہے۔ دیر رات تک موبائل کا استعمال اور بچے تک والدین کے پہنچتے ہی فوری طور پر اسکرین تبدیل کرنے کا رجحان، یہ سب ایسی خطرناک علامتیں ہوسکتی ہیں جن سے بچوں کے مزاج میں جرائم پرورش پاسکتے ہیں۔ یہ تفتیشی رپورٹ بہت کچھ کہہ رہی ہے۔ بچے ہمارے گھر، معاشرے اور ملک کی بنیاد ہوتے ہیں۔ مستقبل میں یہ بچے خاندان اور ملک کو تعمیری رُخ دیتے ہیں۔ اگر وہ سائبر کرائم کی آلائش میں ڈوب کر اپنا کریئر تباہ کرلیتے ہیں تو یہ صرف ان کا ذاتی نقصان نہیں بلکہ قوم اور ملک کو اس کے تباہ کن نتائج بھگتنے پڑسکتے ہیں۔ واضح ہو کہ ان معصوم بچوں کا شفاف کردار ہی ان کے مستقبل کی ضمانت ہے۔ اگر اچھی تربیت کے نتیجے میں ان کا شباب بے داغ ہوتا ہے تو آنے والے دنوں میں یہی بچّے معاشرے سے برائی کو ختم کرنے اور عدل و انصاف قائم کرنے میں اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔ ایسی صورت میں آئی ٹی ٹکنالاجی کے موجودہ عہد میں والدین کی ذمہ داری بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ جدید سائنسی تہذیب والدین کے لیے درحقیقت ایک چیلنج کی مانند ہے۔ اس لیے والدین ہی نہیں بلکہ گھر اور معاشرے کے ہر سمجھ دار انسان کا فریضہ ہے کہ وہ بچوں کی تربیت میں کلیدی کردار ادا کریں۔ اس ضمن میں اسکول کے اساتذہ کو بھی چوکنا رہنا چاہیے اور ان کو اپنے اسکول کے بچوں کے تئیں شفقت پدری کا مظاہرہ کرتے ہوئے تعلیم کے ساتھ ان کی تربیت بھی کرنی ہوگی۔ تبھی قوم و ملک کا مستقبل روشن ہوسکتا ہے۔ یاد رکھیے کہ لمحوں کی خطا، صدیوں پر بھاری ہوتی ہے۔ علامہ اقبال کے بقول
آزادی افکار سے ہے ان کی تباہی
رکھتے نہیں جو فکر و تدبّر کا سلیقہ
ہو فکر اگر خام تو آزادی افکار
انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ
(ضرب کلیم)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔