جامع مسجد سنبھل کے تنازع پر صدر جمعیۃ علماء ہند کا بیان
نئی دہلی، 20 نومبر:صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی نے سنبھل کی جامع مسجد کے حوالے سے پیدا کردہ تنازع اور عدالت کی جانب سے سروے کے حکم پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ تاریخ کے جھوٹ اور سچ کو ملا کر فرقہ پرست عناصر ملک کے امن و امان کے دشمن بنے ہوئے ہیں ۔انھوں نے کہا کہ ماضی کے گڑے مردے اکھاڑنے سے ملک کی سیکولر بنیادیں متزلزل ہورہی ہیں ، نیز تاریخی بیانیے کو دوبارہ ترتیب دینے کی کوششیں قومی سالمیت کے لیے کسی بھی طور پر مناسب نہیں ہیں۔
مولانا مدنی نے یاد دلایا کہ ملک نے بابری مسجد کی شہادت کا زخم برداشت کیا ہے اور اس کے اثرات سے آج بھی دوچار ہے ۔ اسی پس منظر میں عبادت گاہ (خصوصی دفعات) قانون 1991 نافذ کیا گیا تھا تاکہ ملک مسجدو مندر کے جھگڑوں کی آماجگاہ نہ بن پائے۔ سپریم کورٹ نے بھی بابری مسجد قضیہ میں فیصلہ سناتے ہوئے اس قانون کو ضروری قرار دیا تھا ، لیکن آج عدالتیں اس کو نظرانداز کرکے فیصلے سنارہی ہیں ۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ کہیں نہ کہیں مسجد کا تنازع کھڑا کیا جا رہا ہے اور پھر ’سچائی جاننے‘کے نام پر عدالتوں سے سروے کی اجازت حاصل کرلی جاتی ہے۔ اس کے بعد یہ سروے میڈیا کے ذریعے دو کمیونٹیز کے درمیان دیوار بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔مولانا مدنی نے کہا کہ ہم عدالت کے فیصلوں کا احترام کرتے ہیں، لیکن عدالت کو فیصلے کرتے وقت یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ ملک اور سماج پر اس کے کیا اثرات پڑیں گے۔
مولانا مدنی نے امید ظاہر کی کہ مسجد انتظامیہ کمیٹی جامع مسجد کے تحفظ کے لیے حتی الوسع کوشش کرے گی۔ساتھ ہی یہ یقین دلایا کہ اگر ضرورت پڑی تو جمعیۃ علماء ہند قانونی چارہ جوئی میں تعاون فراہم کرنے کو تیار ہے۔صدر جمعیۃ علماء ہند نے ملک کے تمام شہریوں سے اپیل کی کہ وہ امن و امان کے قیام کے لیے صبر و استقامت کا مظاہرہ کریں اور کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس سے فرقہ پرستوں کے منصوبے کامیاب ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔