کیا مشورہ دیا جاتاہے کہ مسلمانوں کو اقتدار میں آنے کی ضرورت نہیں ہے ، انہیں حکومت کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، انہیں بس ہر طرح کی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے ،، سماج و معاشرے میں بگاڑ ہو تو اس کی اصلاح کریں ، گاؤں میں کوئی آفت و بلا آئے تو اس کی روک تھام کی کوشش کریں ، کہیں کوئی حادثہ پیش آجائے تو راحت بچاؤ میں تعاؤن کریں، یہاں تک کہ حکومت بنانے میں اہم کردار ادا کریں اور حکومت کوئی غلط فیصلہ لے اور ملک کی عوام اوب جائے تو اس کی اصلاح کے لئے تیار رہیں ، الیکشن کے پرچار گاڑی سے گھومیں پھریں اور شام کو مزدوری لے کر اپنے گھر جائیں ، ریلی ہونے والی ہو تو اسٹیج بنائیں ، دری بچھاکر لوگوں سے بڑی تعداد میں شریک ہونے کی اپیل کریں ، سیاسی لیڈروں کا استقبال کریں ، تھوڑی تھوڑی دیر میں تالیاں بجائیں اور نعرہ بھی لگاتے رہیں کل ملاکر ہر سیاسی پارٹی یہ چاہتی ہے کہ مسلمان ہمارے ووٹ بینک بنے رہیں۔
ملک کی آزادی کے بعد سے یہی سلسلہ بدستور چلا آرہاہے اور یہ سلسلہ کانگریس نے ہی شروع کیا ہے اقتدار میں رہتے ہوئے اسے ساڑھے چار سال تک مسلمانوں کی یاد نہیں آتی تھی بس گنے چنے لوگوں کو راجیہ سبھا میں رکھ کر ربڑ اسٹمپ کی طرح استعمال کرتی تھی ،، کہیں فرقہ وارانہ فساد ہوتے تھے تو مسلمانوں کے گھر جلائے جاتے تھے ، انہیں کی گرفتاریاں بھی ہوتی تھیں جانی اور مالی نقصان سب سے زیادہ مسلمانوں کا ہوتا تھا جب ماحول سازگار ہونے لگتا تو مسلمانوں کے انہیں مخصوص چہروں کو ان کی آبادی میں بھیج تی اور وہ آکر معافی مانگتے اور کانگریس کی شان میں قصیدہ خوانی کرتے ،، ساڑھے چار سال کے بعد سے ربڑ اسٹمپ نما مسلم لیڈران کو کاروں میں بیٹھا کر مسلمانوں کی آبادی میں بھیج دیا جاتا اور یہ کاروں میں بیٹھ کر شیشہ گراکر کھڑکی سے گردن نکال کر بازاروں ، چوراہوں ، شاہراہوں ، مسلم آبادیوں سے گزرتے تو ہاتھ باہر نکال کر مسکراکر کہتے کہ السلام علیکم ،، مطلب اشارہ یہ ہوتا کہ دیکھئے کانگریس مسلمانوں کی کتنی ہمدرد ہے جو ہمیں اتنی عزت دیتی ہے آپ لوگ کانگریس کو ووٹ دیں ۔
یہ بھی ایک سچائی ہے کہ کانگریس جب کمزور رہتی ہے تو اسے مسلمانوں کی بڑی فکر رہتی ہے اور جب طاقتور ہوتی ہے تو مسلمانوں کو نظر انداز کرتی ہے گزرے ہوئے پارلیمانی انتخابات میں دیکھئے مہاراشٹر ، چھتیس گڑھ اور جھارکھنڈ میں مسلمانوں کو ٹکٹ نہیں دیا تھا اس لئے کہ 2019 کی بنسبت ادھر کانگریس کے اندر کچھ مضبوطی آئی ہے تو پھر وہی پرانا رویہ نظر آیا ،، کرناٹک میں مسلمانوں کے ساتھ کہاں انصاف کیا ۔
اب بات کرتے ہیں سبھی اپوزیشن پارٹیوں کی بہار میں ووٹر فہرستوں کی ترتیب و سدھار کے معاملے میں الیکشن کمیشن نے جو دستاویزات مانگے اور جو مہمانی کا طریقہ اپنایا اس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ این آر سی کا آغاز ہوگیا ہے حالانکہ کی شہریت پر سوال اٹھانا یا کسی سے شہریت کا ثبوت مانگنا یہ الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے لیکن یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے ،، مخصوص طریقے سے این آر سی کے نفاذ میں حکومت کو ہنگامی حالات پیدا ہونے کا خدشہ ہے اس لئے الیکشن کمیشن کے ذریعے یہ کام کرایا جارہا ہے اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ الیکشن کمیشن کے روئیے کو جب سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تو اپوزیشن پارٹیوں کی جانب سے یہ معاملہ سرے سے ہی خارج کرنے کی مانگ کیوں نہیں کی گئی ؟ اس سے تو یہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر بی جے پی یہ چاہتی ہے کہ اس طرح الیکشن کمیشن کی کاروائی سے ایک بہت بڑے طبقے کے سامنے ووٹ دینے کا مسلہ کھڑا ہوجائے گا اور اس کے مسلے میں الجھنے سے بی جے پی کا فائدہ ہوگا اور ہمیں پھر حکومت سازی میں آسانی ہوگی تو اپوزیشن پارٹیاں بھی تو شائد وہی خواب دیکھ رہی ہیں اور ڈھل مل نظریہ سے کام لے کر ہندو اور مسلمان دونوں کو اندھیرے میں رکھ کر واہ واہی لوٹنا چاہتی ہیں ۔
گیارہ سال میں حکومت نے جتنے قوانین پاس کئے ہیں ان قوانین کے پاس ہونے میں گیارہ سال کے دنوں میں ایسے بھی حالات تھے کہ راجیہ سبھا میں بی جے پی کی اکثریت نہیں تھی پھر بھی سارے بل کیسے پاس ہوئے اور سارے قوانین کیسے بنے؟؟ کیا اپوزیشن پارٹیاں اس کی ذمہ دار نہیں ہیں ،، بالکل سراسر ذمہ دار ہیں ۔
الیکشن کمیشن کو غیر جانبدار ہونا چاہئے تو موجودہ الیکشن کمیشن مکمل جانبداری کا کردار ادا کررہاہے جس کی وجہ سے این ڈی اے کے علاوہ دیگر تمام سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ ملک کی عوام کا بہت بڑا طبقہ بھی الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر سوال اٹھا رہا ہے اور ان کا سوال اٹھانا جائز ہے ۔
سیاسی پارٹیوں کی نظر میں مسلمانوں کی کیا اہمیت اور کیا اوقات ہے ابھی حال ہی میں اعظم گڑھ میں اس کا نظارہ دیکھنے کو ملا جبکہ اس پارٹی کا وجود ہی مسلمانوں کی بدولت برقرار ہے اور مسلمان بھی چاپلوسی کی حدیں پار کرچکا ہے آٹھ بار کا رکن اسمبلی جب اسٹیج پر دھکا دے کر کنارے کردیا جائے جس کے نتیجے میں عوام کے اندر غصہ اور ناراضگی پیدا ہوجائے پھر بھی وہ رکن اسمبلی چاپلوسی کرے کہ نہیں میرے ساتھ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ہے جبکہ سوشل میڈیا کے ذریعے ہزاروں ہزار لاکھوں لاکھ لوگوں نے دیکھا ہے ،، جب اپنی کوئی طاقت نہیں ہوگی کوئی پہچان نہیں ہوگی صرف چاپلوسی ہوگی تو یہی حال ہوگا۔
ایک ملاقات میں سابق مرکزی وزیر آنجہانی رام بلاس پاسوان کی بات راقم کو آج بھی یاد ہے انہوں نے کہا تھا کہ سیاسی پارٹی میں قد اسی کا اونچا ہوتا ہے جو اپنے سماج کی شناخت کے ساتھ آتا ہے پارٹیاں ٹکٹ دیتی ہیں اور کوئی کامیاب ہوکر ایوان میں آگیا تو وہ سماج کی بنیاد پر نہیں بلکہ وہ تو پارٹی کی بنیاد پر آیا ہے ،، سماج اتنا بیدار ہو کہ ٹکٹ دینے والے کو یہ احساس ہو کہ فلاں سماج کے اندر سیاسی بیداری بہت ہے اور فلاں کا تعلق اسی سماج سے ہے وہ ٹکٹ پاکر اپنے سماج کا ووٹ حاصل کرے گا اور کامیاب ہوگا ،، ایسے شخص کا قد پارٹی میں بڑا اونچا ہوتا ہے ۔
دوسری بات یہ کہی تھی کہ ہندوستان میں اپنی اور سماج کی سیاسی شناخت قائم کرنا جتنا آسان ہے اتنا دنیا کے کسی ملک میں نہیں ہے اس کے باوجود بھی کوئی سماج اپنی سیاسی شناخت قائم نہ کرسکے تو یہ اس سماج کی کمی ہے پھر تو اس کے سامنے مسائل کے انبار لگ سکتے ہیں اور اسے مسائل کے حل کے لئے دوسرے سماج کے لیڈر کا ہی سہارا لینا ہوگا اور وہ لیڈر آپ کے مسائل حل کرانے میں اپنا سیاسی فائدہ نقصان ضرور دیکھے گا۔
لہذا بہار کے الیکشن میں مسلمان اور بالخصوص پسماندہ مسلمان بی جے پی کو ہرانے کی ٹھیکیداری سے اوپر اٹھ کر خود جیتنے ہار نے کا راستہ اختیار کرے اور اپنی سیاسی بیداری کا پرچم لہراتے ہوئے اپنی سیاسی شناخت قائم کرے تبھی سارے مسائل حل ہوں گے۔
بڑے بڑے اجتماع کرکے دیکھ لیا کسی کو ایم ایل سی بنا دیا جاتا ہے اور کسی کو راجیہ سبھا بھیج دیا جاتا ہے اور وہ شخص پھر حکومت وقت کی بولی بولنے لگتاہے ایسا بار بار ہوا ہے ،، چاہے وقف قانون کا مسلہ ہو یا ہجومی تشدد کا مسلہ ہو اپوزیشن پارٹیوں نے کتنا ساتھ دیا ہے؟ اور جہاں تک مسلمانوں کی بات ہے تو والد محترم کو وزیر اعلیٰ بنایا ، والدہ محترمہ کو وزیر اعلیٰ بنایا اور وہ دونوں چاہتے ہیں کہ بہار کا مسلمان اب بیٹا کو وزیر اعلیٰ بنادے جبکہ بہار میں سترہ فیصد مسلمان ہیں اپوزیشن پارٹیاں کیوں نہیں اعلان کرتی ہیں کہ بہار میں اب کی بار مسلم وزیر اعلیٰ ہوگا ،، یہ ان سے نہیں ہوگا بس مسلمانوں کا صرف ووٹ چاہئے ،، اور اب تک یہی ہوا ہے۔
+++++++++++++++++++++++++++
جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین) محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی