مقدمے کے اولین عرضی گزار جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے فیصلے کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ یہ انصاف کا خون کرنے والوں کے لیے درس عبرت ہے ۔ جمعیۃ کے وکیلوں کو کامیابی پر مبارکباد دی
نئی دہلی 13 نومبر :”بلڈوزر انصاف” کی چل پڑی انصاف کش روایت کے خلاف سخت پیغام دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے آج یہ فیصلہ سنایا کہ سرکار یا انتظامیہ کسی بھی شخص کے گھر کو صرف اس بنیاد پر نہیں گرا سکتی کہ وہ کسی جرم کا ملزم یا سزا یافتہ ہے، نیز اس سے ایک شخص نہیں بلکہ پورا گھر متاثر ہوتاہے۔
یہ فیصلہ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی کی طرف سے دائر کردہ عرضی نمبر 295/2022 پر سماعت کرتے ہوئے سنایا گیا۔ سپریم کورٹ نے جمعیۃ کے سینئر وکیل ایم آر شمشاد اور دیگر وکیلوں کا بھی شکریہ ادا کیا جنھوں نے گائیڈ لائن بنانے میں عدالت کی مدد کی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اس طرح کی کارروائی کی اجازت دینا قانون کی حکمرانی کی توہین اور اختیارات کی تقسیم کے اصول کی خلاف ورزی بھی ہے، کیونکہ کسی شخص کے قصوروار ہونے کا فیصلہ کرنا عدلیہ کا کام ہے۔انتظامیہ کسی شخص کو مجرم قرار نہیں دے سکتی۔ محض الزام کی بنیاد پر اگر انتظامیہ کسی شخص کی املاک کو مسمار کرتی ہے تو یہ قانون کی حکمرانی کو کمزور کرے گا۔ جب حکام بنیادی اصولِ انصاف پر عمل کرنے میں ناکام ہوں اور مناسب قانونی کارروائی کے بغیر کسی کا گھر گرادیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہےکہ طاقت کا استعمال ہی سب کچھ ہے۔ ایسی سخت گیر اور غیر منصفانہ کارروائیاں آئینی جمہوریت میں ناقابلِ قبول ہیں۔ ایسی کارروائیوں کو سخت قانونی ردعمل کا سامنا کرنا چاہیے۔ ہمارے آئین میں ایسے عمل کی اجازت نہیں ہے…”۔
عدالت نے یہ بھی فیصلہ دیا کہ جو سرکاری افسران اس انداز میں املاک کو مسمار کرتے ہیں، انہیں جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔نیز اگر افسران قصور وار پائے گئے تو پراپرٹی کا معاوضہ بھی افسران سے لیا جائے گا۔ عدالت نے مزید کہا کہ ایسی کارروائیاں مجرم یا ملزم کے خاندان پر "اجتماعی سزا” مسلط کرنے کے مترادف ہیں۔واضح ہو کہ اس معاملے میں فیصلے کا اعلان یکم اکتوبر کو محفوظ کر لیا گیا تھا اور بنچ نے صاف لفظوں میں کہا تھا کہ سزا یافتہ شخص کے گھر کے خلاف بھی بلڈوزر کارروائی نہیں کی جا سکتی، کجا کہ کسی ایسے شخص کے گھر کے خلاف جس پر محض الزام ہو۔جب کیس کی سماعت ہو رہی تھی تو عدالت نے ملک بھر کے لیے ہدایات جاری کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا جو سب پر یکساں لاگو ہوں، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ غیر قانونی تعمیرات کو مسمار کرنے کے لیے مقامی قوانین کا غلط استعمال نہ ہو۔
جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی کا بیان
جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے "بلڈوزر انصاف” کے خلاف فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے قانون کی حکمرانی اور شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی جانب ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ انصاف کا خون کرنے والوں کو منہ توڑ جواب ملاہے۔ انھوں نے کہا، "یہ فیصلہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ کسی بھی فرد کے قصوروار ہونے کا فیصلہ عدالت کا اختیار ہے نہ کہ انتظامیہ کا۔ سرکاری ادارے اور افسران جو عدالت بن کر لوگوں کی املاک کو منہدم کر رہے تھے، انہیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ ایسے غیر قانونی اقدامات ناقابل قبول ہیں، مولانا مدنی نے کہا کہ بلڈوزر جسٹس کے مکروہ عمل سے حکومتوں کے دامن بھی صاف نہیں ہیں ، امید ہے کہ حکومتیں اس فیصلے سے نصیحت حاصل کرے گی۔”
مولانا مدنی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ان تمام افراد کو معاوضہ دیا جائے جن کی املاک بغیر مناسب قانونی عمل کے منہدم کی گئی ہیں۔انھوں نے کہا کہ آئین ہر شہری کے بنیادی حقوق کی حفاظت کرتا ہےاور ان کے خلاف کسی بھی غیر آئینی اقدام کو روکا جانا ضروری ہے۔ جمعیۃ علماء ہند نے ہمیشہ اصول انصاف اور آئینی حقوق کی حفاظت کے لیے آواز بلند کی ہےاور اس فیصلے کے بعد ہمارا عزم مزید مضبوط ہوا ہے کہ ہم اس مقصد کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔اس موقع پر مولانا محمود اسعد مدنی نے جمعیۃ کے سبھی وکیلوں اور دیگر عرضی گزاروں کو مبارکباد دی جن کی جد و جہد سے انصاف کا چراغ جلا ہے۔
عدالت کی طرف سے "بلڈوزر انصاف” کی کارروائی کے لیے ہدایات
(۱) پراپرٹی کے منہدم کرنے سے قبل متعلقہ اتھارٹی کی جانب سے تفصیلی معائنہ رپورٹ تیار کی جانی چاہیے(۲) انہدام کی کارروائی کو ویڈیوگرافی کے ذریعے محفوظ کیا جائے (۳) انہدام کی رپورٹ میں پولیس اور سول افسران کی فہرست شامل ہو جو اس کارروائی میں شریک ہوں گے (۴) یہ رپورٹ میونسپل کمشنر کو بھیجی جائے اور ڈیجیٹل پورٹل پر عام کی جائے۔
اگر ان ہدایات کی خلاف ورزی کی گئی تو (۱) عدالت کی توہین کی کارروائی اور قانونی مقدمات شروع کیے جائیں گے (۲) عدالت کے احکامات کی خلاف ورزی کی گئی تو انہدامی کارروائی کے لیے ذمہ دار افسران کو ذاتی خرچ پر مسمار شدہ جائیداد کی بحالی اور نقصانات کی ادائیگی کے لیے جوابدہ ٹھہرایا جائے گا (۳) تمام ریاستوں اور یونین ٹیریٹریز کے چیف سیکریٹریز اور تمام ہائی کورٹس کے رجسٹرار جنرلز کو بھیجنے کی ہدایت کی گئی (۴) تمام ریاستی حکومتوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ اپنے متعلقہ حکام کو فیصلے سے آگاہ کرنے کے لیے سرکلر جاری کریں (۵) عدالت نے سینئر وکلاء کی تجاویز اور معاونت کو سراہا، جن میں شامل ہیں ڈاکٹر ابھیشیک منو سنگھوی، سی یو سنگھ، ایم آر شمشاد، سنجے ہیگڑے، نتیا راما کرشنن، پرشانت بھوشن، محمد نظام پاشا، فوزیہ شیخ، رشمی سنگھ وغیرہ۔سینئر وکیل ناچیکیتا جوشی کی تجاویز مرتب کرنے میں معاونت کرنے پر بھی تعریف کی گئی۔
مقدمہ من جانب نیاز احمد فاروقی سکریٹری جمعیۃ علماء ہند بنام حکومت ہند : مقدمہ نمبر 95/2022
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔