30.7 C
Delhi
جولائی 31, 2025
مضامین

بس ایک روٹی تو مانگی تھی!! تحریر : جاوید اختر بھارتی

صبح کا سورج نمودار ہوا سارے لوگ اپنے کاموں میں  مصروف ہیں ، دکاندار گراہک کے ساتھ خریدوفروخت میں لگا ہوا ہے ، آفس میں جو جس درجے و شعبے کا ذمہ دار ہے وہ اپنی ذمہ داری نبھا رہا ہے مدارس کے اندر درس و تدریس کا فریضہ انجام دیا جارہا ہے روڈ پر ٹریفک پولیس اپنا فرض نبھارہی ہے دوپہر کا وقت ہوگیا کوئی دوپہر کا کھانا کھا رہا ہے تو کوئی کھانا کھا کر آرام کررہا ہے شہر میں اونچی اونچی بلڈنگیں ہیں پوری آبادی میں دوپہر کا سناٹا چھایا ہوا ہے ایک فقیر ہے جو پوری آبادی میں صدائیں لگا رہا ہے کہ ہے کوئی ہاتھ اونچا کرنے والا ، ہے کوئی اللہ کا بندہ جو اس فقیر کو کھانا کھلا دے ، ہے کوئی اللہ کا بندہ جو اس بے سہارے کا سہارا بن جائے۔
میں ایک فقیر ہوں ، تن تنہا ہوں ، اس دنیا میں میرا کوئی نہیں ،، بیٹی اور بیٹا بھی نہیں ، پوتی اور پوتا بھی نہیں ، بھائی اور بھتیجا بھی نہیں ، رہنے کے لئے مکان نہیں ، سونے کے لئے بستر نہیں ، اوڑھنے کے لئے چادر نہیں بس میرے پاس جو کچھ ہے وہ میرے جسم پر ہے یہی میرا کل سرمایہ ہے ، یہی میری کل پونجی ہے ، میرے پاس دولت نہیں ، میرے پاس زمین جائداد نہیں۔
مجھے بھی کبھی کبھی احساس ہوتاہے کہ کاش میرے پاس بھی دولت کی فراوانی ہوتی ، رہنے کے لئے عالیشان مکان ہوتا ، چلنے کے لئے کار ہوتی تو سماج و معاشرے میں میری بھی ایک پہچان ہوتی ، مختلف تقاریب میں مجھے بھی مدعو کیا جاتا ، میرا بھی استقبال کیا جاتا جب میں یہ سوچتا ہوں تو دماغ میں مختلف خیالات اور وسوسے آتے ہیں سانسیں تھمنے لگتی ہیں ، چہرے پر اداسی چھاجاتی ہے ، آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں لیکن پھر بھی میں خود ہی اپنے آپ کو ڈھارس بندھاتا ہوں اور خود کو سنبھالتا ہوں ۔
پھر میرے دل سے آواز آتی ہے کہ آدمی مسافر ہے آتا ہے اور جاتاہے چلتی کا نام گاڑی ہے اور رک جائے تو لوہا ہے ، تو اپنا دل چھوٹا نہ کر رکشے پر بیٹھنے والا ہو یا رکشا چلانے والا ہو ، جھگی جھوپڑی میں رہنے والا ہو یا شیش محل میں رہنے والا ہو ، بادشاہ ہو یا فقیر، راجہ ہو یا رعایا ، امیر ہو یا غریب ، گورا ہو یا کالا،شہری ہو یا دیہاتی سب کو ایک دن مرنا ہے سب کو اسی مٹی میں دفن ہونا ہے۔
محلوں میں رہنے والا بھی محل چھوڑ کر قبر میں جائے گا جو کھاکھا کر مرے گا وہ بھی قبر میں جائے گا اور جو بھوکا پیاسا مرے گا وہ بھی قبر میں جائے گا ،، دنیا میں جتنا چاہے اچھل کود لے ، جتنا چاہے سیر وتفریح کرلے لیکن سچائی یہی ہے کہ ہر راستہ گھوم پھر کر قبرستان ہی کی طرف جاتا ہے بس تو اپنے سے کمزوروں کو دیکھ جینے کا حوصلہ ملے گا کیونکہ تیرے پاس دو آنکھیں ہیں کسی کے پاس آنکھیں نہیں ، تیرے پاس آنکھیں بھی ہیں اور روشنی بھی کسی کے پاس آنکھیں ہیں تو روشنی نہیں ، تیرے پاس ہاتھ ہیں تو کسی کے پاس ہاتھ نہیں ، تیرے پاس پاؤں ہیں اور بہت سے ایسے ہیں جن کے پاس پاؤں نہیں،، دنیا میں صحت مند ہیں تو بیمار بھی ہیں ، دشمن ہیں تو دوست بھی ہیں ، تنقید کرنے والے ہیں تو تعریف کرنے والے بھی ہیں پوری دنیا ایسے ہی ہے جیسے ریل کا سفر ،، ایک جگہ سے بن کر چلتی ہے اور ایک جگہ پر سفر مکمل ہوتاہے پھر وہ اس سے آگے نہیں بڑھتی اس پر سوار مختلف مقامات پر بیچ بیچ میں اترتے رہتے ہیں اور جہاں سفر مکمل ہوتاہے وہاں سب اتر جاتے ہیں اسی طرح آئے دن لوگ مرتے رہتے ہیں اور پیدا بھی ہوتے رہتے ہیں لیکن ایک دن ایسا آئے گا کہ پیدا کوئی نہیں ہوگا بلکہ اس دن سب کو موت کے گھاٹ اترنا ہوگا۔
سب کا مالک اللہ ہے سب کا خالق اللہ ہے دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا آدمی چودھری اپنی زندگی ایک منٹ بڑھا نہیں سکتا ، اپنی اور دوسرے کی تقدیر بدل نہیں سکتا ان سب خصوصیات کا مالک اللہ ہے اسی کے قبضہ قدرت میں سب کچھ ہے وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا بغیر اس کی مرضی کے ایک ذرہ بھی ادھر سے اُدھر نہیں ہوسکتا تو بھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر بھروسہ رکھ وہی رزاق ہے ایک پرندہ صبح سے شام تک سیر وتفریح کرتاہے اڑتا پھرتا ہے اور شام کو جب اپنے گھونسلے میں واپس آتا ہے تو اس کے منہ میں اس کے  بچوں کی خوراک ہوتی ہے دنیا کا کوئی انسان اس پرندے سے نہیں کہتاہے کہ تو اپنی چونچ میں اپنے بچوں کے لئے کچھ لے کر جا پرندوں کو  یہ صلاحیت اللہ نے عطا فرمائی ہے تو بھی اسی پروردگار سے لو لگا وہ تجھے بھی رزق عطا فرمائے گا۔
آخر کار بھوکا فقیر صدائیں لگاتے لگاتے ایک بڑی اونچی بلڈنگ کے قریب پہنچتا ہے دروازے پر کنڈی کھٹکھٹا کر آواز دیتاہے کہ تمہیں اللہ کا واسطہ بھوکے فقیر کو بھی روٹی کھلادو ،، اس بلڈنگ میں رہنے والے بہت دولت مند تھے فقیر نے آواز لگائی تو اس بلڈنگ کی بالائی چھت سے ایک شخص نے روٹی پھینکی جب روٹی زمین پر گری تو کئی ٹکڑے ہو گئی اور روٹی کے ٹکڑے کچھ دور تک پھیل گئے فقیر بیچارہ روٹی کے ٹکڑے کو ایک جگہ جمع کیا اور صاف کرکے کھایا اور کھانے بعد کہتاہے کہ اللہ تمہارے اہل وعیال کو ہر آفت و بلا سے محفوظ فرمائے اور خوب خیر وبرکت کا نزول فرمائے۔
بلڈنگ کے بالائی چھت سے جب روٹی کا ٹکڑا پھینکا تو پھینکنے والے کا باپ اپنی آنکھوں سے دیکھا ، فقیر کو روٹی کا ٹکڑا اکٹھا کرتے ہوئے دیکھا اور صاف کرکے کھاتے ہوئے بھی دیکھا فقیر نے جب دعائیں دیں تو آواز اس کے کانوں تک پہنچی وہ بے چین ہوا نیچے اتر کر آیا فقیر سے معافی مانگی پھر گھر میں داخل ہوا تو بیٹے کو بہت ڈانٹا پھٹکارا اور گھر میں کہدیا کہ اس کو کھانا کوئی نہیں دے گا اسے میں کھانا دونگا۔
دوسرے دن دوپہر کا کھانا سب نے کھا لیا بس ایک بیٹا ابھی کھانا نہیں کھایا تھا ،، باپ اس کو کھلانے کے لئے کھانا اس کے کمرے میں لے گیا دسترخوان پر سب کچھ رکھ دیا اور روٹی اپنے ہاتھوں میں لے کر کمرے کے دروازے پر کھڑا ہوگیا بیٹا کہتاہے کہ روٹی تو ہے ہی نہیں آخر میں کیسے کھانا کھاؤں گا تب باپ نے روٹی کے چار ٹکڑے کرکے ایک ٹکڑا بیٹے کے سامنے پھینک دیا ،، پھر بیٹے نے روٹی مانگی تو پھنک کر دیا چوتھی بار جب باپ نے روٹی کا ٹکڑا پھینکا تو بیٹا کہتا ہے کہ ابو آپ میرے ساتھ ایسا سلوک کیوں کررہے ہیں تو باپ نے جواب دیا کہ اس لئے کہ تجھے معلوم ہوسکے کہ روٹی پھینک کر دینے اور کسی کو ذلیل وخوار کرنے کا انجام کیا ہوتا اور جس کے ساتھ یہ سلوک ہوتا ہے اس پر کیا گزرتی ہے۔
آخر تجھے دولت کا گھمنڈ کیوں ہے ابھی تو ایک پھوٹی کوڑی کا بھی مالک تو نہیں میں ہوں ،، ذرا سینے پر ہاتھ رکھ کر غور کر وہ فقیر اتنی ذلت ورسوائی کے بعد ڈھیر ساری دعائیں دے کر گیا اور تو  روزانہ کھاتا ہے لیکن کیا کبھی دعائیں دیں؟ کبھی نہیں ،، آخر کس بات کا تجھے گھمنڈ ہے دونوں ہاتھوں سے دولت بٹورنے والا خالی ہاتھ قبرستان جاتاہے, سکندر ذوالقرنین خالی ہاتھ قبرستان گیا ،، تو بھی ایک دن قبرستان جائے گا ، مرنے کے بعد وہ فقیر جھگی جھوپڑی میں نہ رہ کر قبرستان جائے گا تو یاد رکھ مرنے کے بعد اس عالیشان محل میں تو بھی نہیں رہے گا تجھے بھی مر کر قبرستان ہی جانا ہے ،، تو انسان تو ہے مگر تیرے اندر انسانیت نہیں ہے ، تیرے پاس دل تو ہے لیکن تیرے دل میں غریبوں کی عزت و ہمدردی نہیں ہے ،، اس فقیر کی کوئی مجبوری ہوگی بس ایک روٹی کا ہی تو سوال کیا تھا تونے اسے روٹی بھی دی تو حقارت بھرے انداز میں ، تونے اسے روٹی تو دی مگر اس کی غربت کا مذاق اڑا کر ، تونے اسے روٹی تو دی مگر اس کی عزت کی دھجیاں اڑاکر ،، یاد رکھنا جس کے اندر اخلاق نہیں اس کے کچھ بھی نہیں ، جس کے اندر احساس نہیں اس کے اندر کچھ نہیں ۔
آج سے توبہ کر اپنے گناہوں کی اللہ تبارک وتعالیٰ سے معافی مانگ ، اپنے سے بڑوں کی عزت کرنا سیکھ ، چھوٹوں سے پیار ومحبت اور شفقت سے پیش آنا سیکھ ہاتھ اللہ نے عطا کیا ہے سخاوت کے لئے ، پاؤں دیا ہے راہ صداقت کے لئے ، دل دیا ہے تجھے ایمان کی دولت کے لئے ہر نظر ہو تیری نظارۂ الفت کے لئے دل بیتاب رہے اللہ و رسول کی اطاعت کے لئے تب تجھے جینے کا مزا آئے گا اور مرنے کے بعد یہی اعمال ساتھ جائے گا ۔
      +++++++++++++++++++++++++++++++
جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین) محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی
موبائل: 8299579972

Related posts

کیا ابھی بھی سر جوڑ کر بیٹھنے کا وقت نہیں آیا:جاوید اختر بھارتی

www.journeynews.in

پی ایم مودی آج ملک کی نئی پارلیمنٹ کی عمارت کا افتتاح کریں گے۔

www.journeynews.in

عصری تعلیم حاصل کرنے والوں کے لئے تربیت گاہ کی ضرورت

www.journeynews.in