30.5 C
Delhi
اگست 15, 2025
Delhi

مسرور جہاں کے افسانے سماجی حقیقت کا ایک آئینہ: رخشندہ روحی مہدی

*مسرور جہاں کے افسانوں کی ڈرامائی قرات پر مشتمل محفل انعقاد*
نئی دہلی (خصوصی رپورٹ) — دیش بندھو چترنجن میموریل سوسائٹی اور ونگز کلچرل سوسائٹی کے اشتراک سے 10 اگست، اتوار کی شام چترنجن بھون، چترنجن پارک، نئی دہلی میں ایک یادگار ادبی تقریب بعنوان ”افسانہ ہوئی شام“ کا انعقاد ہوا۔ اس پروگرام کی روحِ رواں مشہور فکشن نگار مسرور جہاں کی نواسی سائرہ مجتبٰی تھیں، جنہوں نے بڑے سلیقے سے اس شام کو یادگار بنانے کا انتظام کیا۔ اس تقریب کا مقصد مسرور جہاں کے افسانوی سرمائے کو ڈرامائی قرات کے ذریعے ناظرین تک پہنچانا اور ان کے فن و فکر کو خراجِ عقیدت پیش کرنا تھا۔ تقریب کا آغاز سائرہ مجتبٰی کے ایک پُراثر تعارفی گفتگو سے ہوا، جس میں سامعین کو مسرور جہاں کی زندگی، فن اور ادبی خدمات کا مختصر جائزہ پیش کیا گیا۔ پروگرام میں مختلف اہلِ قلم، اساتذہ، محققین اور ادب دوست حضرات نے شرکت کی۔
سب سے پہلے معروف ادیبہ اور نقاد رخشندہ روحی مہدی نے مسرور جہاں کے افسانوی اسلوب اور ان کی تخلیقی انفرادیت پر گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ مسرور جہاں کے افسانے محض بیانیہ نہیں بلکہ سماجی حقیقت کا ایک آئینہ ہیں، جن میں عورت کے جذبات، اس کی محرومیاں اور اس کے خواب نہایت سچائی کے ساتھ پیش کیے گئے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ مسرور جہاں کی تحریروں میں زبان کی شستگی، پلاٹ کی مضبوطی اور کرداروں کی نفسیاتی گہرائی ایک ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے۔
اس کے بعد معروف کہانی کار محترمہ سنیتا سنگھ نے مسرور جہاں کا مشہور اور جرات مندانہ افسانہ ”لٹیرا“ پیش کیا، جو میریٹل ریپ یعنی ازدواجی عصمت دری جیسے حساس اور کم بحث ہونے والے موضوع پر مبنی ہے۔ ڈرامائی قرات نے سامعین کو نہ صرف چونکا دیا بلکہ ایک گہری خاموشی بھی طاری کر دی۔ افسانے کی پیشکش میں جذبات کی شدت، مکالموں کی روانی اور اداکاری کا حسن قابلِ ذکر تھا، جس نے موضوع کی سنگینی کو دوچند کر دیا۔ اس کے بعد سائرہ مجتبٰی نے مسرور جہاں کے افسانے ”کنجی“ پیش کیا۔ ”کنجی“ میں نواب صاحب اور ایک تھیئٹر رقاص کے مابین ہم جنس پرستی کو بیان کر کے انسانی رشتوں کی نزاکت اور اعتبار کی ٹوٹ پھوٹ کو مؤثر انداز میں اجاگر کیا گیا ہے۔
تیسرا افسانہ ”کھوئے ہوئے لمحے“ پیش کیا مدھومیتا برک نے۔ یہ افسانہ ایک پردہ نشیں خاتون قلمکار کے جد وجہد کی کہانی بیان کرتا ہے، جو سب کچھ یہاں تک کہ اپنے شوہر کو بھی پرورشِ لوح و قلم کی خاطر تج دیتی ہے اور ماضی کی یادوں میں کھو کر خوشیوں کو سامعین تک پہنچاتی ہے۔ آخر میں معروف تھیئٹر آرٹسٹ جناب طارق حمید نے مسرور جہاں کا افسانہ”جلا وطن“ ڈرامائی قرات میں میں پیش کر کے سماں باندھ دیا۔ ”جلا وطن“ میں اندرون ملک ہجرت اور جلاوطنی کے المیے کو نہایت فنکارانہ اور دلگداز انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ ان تمام افسانوں کی قرات میں فنکاروں نے اپنی ادائیگی سے کرداروں کو گویا زندہ کر دیا۔ فنکاروں کی جاندار پیشکش نے افسانوں کو محض الفاظ سے بڑھا کر ایک جیتی جاگتی کہانی کا روپ دے دیا۔ سامعین نے ہر پیشکش کے بعد پُرجوش تالیوں سے فنکاروں کی حوصلہ افزائی کی۔
تقریب کے اختتام سے قبل ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا اور ڈاکٹر شاہد حبیب نے مسرور جہاں کی شخصیت اور فکر پر مختصر مگر جامع گفتگو کی۔ ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا نے کہا کہ مسرور جہاں محض ایک افسانہ نگار نہیں بلکہ عورت کے دکھ درد اور اس کی جدوجہد کی ترجمان تھیں۔ ڈاکٹر شاہد حبیب نے ان کے فن کو اردو فکشن میں ایک سنگِ میل قرار دیتے ہوئے کہا کہ مسرور جہاں کے افسانے اپنے عہد کے عکاس ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے فن سے سماج کو جھنجھوڑنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔
اس طرح یہ تقریب نہ صرف مسرور جہاں کے فن کو خراجِ تحسین تھی بلکہ اردو افسانے کے سنجیدہ قارئین کے لیے ایک یادگار اور بامعنی تجربہ بھی ثابت ہوئی۔ سائرہ مجتبٰی کے کلمات تشکر کے ساتھ مجلس کے اختتام کا اعلان کیا گیا۔
***

Related posts

وقف بورڈ کے نمائندوں نے جدید ترین سنٹرل وقف پورٹل تیار کرنے میں وزارت اقلیتی امورکے اہم اقدام کو سراہام

www.journeynews.in

آئین جمہوریت کی بنیادکا پہلاپتھر،آئین کی بالادستی ختم ہوئی توجمہوریت بھی زندہ نہیں رہ سکے گی

www.journeynews.in

ہیرا گروپ کی جائیدادوں پر معاملہ کرنے والوں کو انتباہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ نے پچھلے تمام معاملات کاالعدم قرار دیا

www.journeynews.in