سرفرازاحمدقاسمی حیدرآباد
رابطہ: 8099695186
اےاہل وطن شام وسحر جاگتے رہنا
اغیار ہیں آمادۀ شر جاگتے رہنا
15 اگست کو ہرسال پورے ہندوستان میں یوم آزادی کے طور پر منایا جاتاہے،1947 میں اسی تاریخ کو ہندوستان نے ایک طویل جدوجہد کے بعد مملکت متحدہ کے استعمار سے آزادی حاصل کی تھی،برطانیہ نے قانون آزادی ہند1947 کا بل منظور کرکے قانون سازی کا اختیار مجلس دستور ساز کو سونپ دیا تھا،یہ آزادی دراصل تحریک آزادی ہند کا نتیجہ تھی،جسکے تحت انڈین نیشنل کانگریس کی قیادت میں پورے بھارت میں تحریک عدم تشدد اور سول نافرمانی میں عوام نے حصہ لیا اور اس جدو جہد میں ہرکس وناکس نے اپنا بھر پور تعاون اور قربانیاں پیش کیں،انگریز بہادر نے تقریبا 200 سال تک ہندوستان میں حکومت کی اور اس ملک کو غلام بناکر رکھا،1757 میں بنگال کی جنگ پلاسی سے لیکر 1947 میں بھارت کی آزادی اور تقسیم تک انکی حکومت رہی،برطانوی سامراج سنہ 1757 میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے قائم ہوا اور 1857 کی جنگ آزادی کے بعد برطانوی حکومت نے براہ راست ہندوستان پر قبضہ کرلیا اوریہاں حکومت کرنے لگے،پھر 1947 میں مذہب کی بنیاد پر ہندوستان کو تقسیم بھی کردیا۔نومبر 1949 میں ہندوستان کی آئین ساز اسمبلی نے اپنے نئے دستور کو اپنایا جو 26 جنوری 1950 کو نافذ ہوا اور یہیں سے ہندوستانی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا،ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر اور انکی ٹیم نے دنیا کے 60 سے زائد اہم ممالک کے آئین کا تجزیہ کر کے ایک جامع دستور مرتب کیا،جس پر دستور ساز اسمبلی کے 284 اراکین نے دستخط کرکے منظوری دی۔اس نئے دستور میں بنیادی طور پر یہاں کے باشندوں کے لئے 7 اہم حقوق فراہم کئے گئے،مساوات کا حق،آزادی کا حق،استحصال کے خلاف حق،مذہب،ثقافت اور تعلیم کی آزادی کا حق،جائیداد کا حق اور آئینی علاج کا حق شامل ہے۔
دنیا کے دوسرے دستوروں کے مقابلے ہندوستان کا آئین سب سے بہترین تصور کیا جاتا ہے،یہ ایک جامع دستاویز ہے جس میں بہت ساری دفعات درج ہیں،ہندوستانی آئین تمام شہریوں کو عوامی تحفظ و سلوک کی شرط پر آزادیئ گفتار و خیال کی ضمانت دیتا ہے،تمام شہری مذہب،نسل،برادری، جنس اور جائے پیدائش سے قطع نظر قانون کی نظر میں برابر ہوں گے اور کوئی بھی معذوری کسی بھی معاملے میں ان پر عائد نہیں ہوگی۔ہندوستان ایک قابل ذکر جمہوری ملک کہلاتاہے،اسے اقلیتوں کا وفاق بھی کہا جاسکتا ہے،اس کے دستور میں تمام شہریوں کو یکساں حقوق،آزادی وثقافت اور انصاف کی ضمانت دی گئی ہے،نسل مذہب علاقے کے نام پر تعصب اور امتیاز کے ہرقسم نفی کی گئی ہے،جمہوریت رواداری اور سیکولرزم یعنی غیر مذہبی جانبداری کو حکومت کا سنگ بنیاد بنایا گیا ہے،لیکن کیا ان چیزوں پر عمل ہورہاہے؟ کیا آزادی کے مقاصد پورے ہورہے ہیں؟آج ملک کی آزادی کو 75 سال سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا،اس درمیان ان جیسے درجنوں سوالات جواب طلب ہیں،ہندوستان میں جنگ آزادی کیوں لڑی گئی،کیسے لڑی گئی اور اسکے پس پردہ مقاصد کیا تھے؟ اسکو سمجھنے کےلئے حضرت مولانا علی میاں ندوی کی ایک تحریر کا حقیقت آفریں اور چشم کشا اقتباس یہاں نقل کرنا ضروری ہے،حضرت مولانا مرحوم رقم طراز ہیں کہ
” 1857 عیسوی میں انگریزی اقتدار کے خلاف پورے ہندوستان کے انگریزی حکومت کی غلامی میں آجانے کے اندیشہ کے پیش نظر جس جنگ آزادی کا آغاز ہوا،جس میں ملک کے باشندے عمومی طور پر شریک ہوئے،جس کو انگریزوں اور ان کی نقالی کرنے والوں نے غدر کا نام دیا ہے جو ابھی تک چلا آرہا ہے،ہندوستان کی جنگ آزادی کی کامیابی کا جو شہرہ ہوا،دنیا میں جدوجہد کرنے والے مخلص اور صاحب بصیرت رہنماؤں کو جو عزت ملی،ان کے کارنامے کا جس طرح اعتراف کیا گیا،معاصر دنیا اور محکوم ملکوں کے لئے وہ جس طرح ایک شاندار نظیر اور ہمت افزا کارنامہ بن گیا،اس نے جس طرح ہندو،مسلم اتحاد،ترک موالات، جیلوں کو بھر دینے اور قربانیوں کے نمونے پیش کرنے کا منظر دنیا کے سامنے پیش کیا اور ہندوستان کا نام روشن کیا ،دنیا کے کئی ملکوں نے جو آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے اس کو اپنے لئے نمونہ اور قابل تقلید مثال سمجھا،آج بھی بہت سے ایشیائی اور مشرقی ملکوں میں ہندوستان کا نام بڑی عزت سے لیا جاتاہے اور جنگ آزادی کے سور ماؤں کو بڑے احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے،ملک کی ازادی کی اس نعمت اور کارنامہ کا حق یہ تھا کہ ہم ہر قیمت پر اور ہر طرح کی قربانی دے کر اس کی حفاظت کریں،اس کی آبرو اور عزت قائم رکھیں،اس پر ہر دور میں اور ہر جگہ فخر اور شکر کے جذبات کا اظہار کیا جائے،غلامی کے دور کے تصور سے ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جائیں اور ہمارے اندر کراہت و حقارت،نفرت اور گھن کا ایک جذبہ پیدا ہو اور ہم کسی حال میں اس دور کے واپس آنے کا تصور اور اس کو ترجیح دینے کا تخیل بھی گوارا نہ کر سکیں،لیکن اب دل پر پتھر رکھ کر،اپنے ضمیر اور سامعین سے معذرت کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ آج ہمارے ملک کی جو حالت ہورہی ہے،ہندوستان کے کئی بڑے بڑے شہروں میں اپنے ہم وطنوں اور ملکی بھائیوں کے ساتھ جو سلوک کیا گیا،جس سفا کی اور بے دردی کے ساتھ ہزاروں آدمیوں کا خون بہایا گیا،گھر،دکانیں لوٹی گئی اور جلائی گئی عورتوں کی بے حرمتی کی گئی،بچوں کو مٹی کے برتنوں کی طرح توڑا اور خاک میں ملایا گیا، کروڑوں،عربوں کا سرمایہ لوٹا گیا اور ضائع کیا گیا،میدان جنگ کی طرح خوف و ہراس کی فضا،باغ و بہار شہروں اور تماشہ گاہ بستیوں پر ہفتوں طاری رہی،اس نے ملک کو ایک ایسی منزل پر کھڑا کردیا کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد غلامی کے دور کو یاد کرنے لگی اور اس زمانے کو نہ صرف ترجیح دینے لگی بلکہ اس کی آرزو کرنے لگی،جب ملک میں ہر طرف امن و امان کا دور دورہ تھا،عزتیں اور عصمتیں محفوظ تھیں بچوں پر کوئی بری نگاہ نہیں ڈال سکتا تھا،ساری خرابیوں،بد کرداریوں اور اس حقیقت کے ساتھ سمندر پار کے رہنے والے انگریزوں کو اس ملک پر حکومت کرنے کا ہرگز حق نہ تھا اور وہ ایک بدیشی راج تھا جو یہاں سے دولت حاصل کر کے اپنے ملک کو منتقل کرتا تھا،عام شہریوں کو اس کا اطمینان تھا کہ وہ محفوظ ہیں،پولیس اور فوج ڈرنے کی چیز نہیں تھی وہ کرایہ کے ٹٹو تھے اور بدیشی حکومت کے غلام، لیکن ان میں اپنے ہم مذہبوں اور اپنی ذات برادری کی حمایت و ترجیح کا جذبہ نہیں تھا وہ امن عامہ اور تحفظ کا اپنے کو ذمہ دار سمجھتے تھے،اس سے زیادہ اس دور اور اس دور کے حاکموں کی تعریف اور اعتراف میں کہنا اپنی عزت و ضمیر کو گوارا نہیں ہے”(ملک کی آزادی کا صحیح مطلب)
کچھ آگے چل کر حضرت مولانا مرحوم ایک جگہ لکھتے ہیں کہ
” بہت سے وہ لوگ جن کو اپنا مذہب عزیز ہے،اپنے خاندانوں،ہم قوموں کی عزت و ناموس عزیز ہے اور پھر اس سے آگے بڑھ کر ملک کا امن و امان اور پرسکون زندگی عزیز ہے،جس میں وہ دینی، اصلاحی،تعلیمی،تصنیفی،ادبی،فنی کام اور مشاغل اطمینان سے انجام دے سکیں اور اس سے بڑھ کر اپنی عبادت گاہیں،درسگاہیں اور کتب خانے عزیز ہیں وہ اس زمانے کو یاد کرنے لگے ہیں خواہ وہ کتنا ہی غیر فطری تھا،جب یہ سب چیزیں عام طور پر محفوظ اور خارج بحث تھی،میں آپ کو یہ بھی سنا دوں کہ میں نے ایک مرتبہ محترمہ اندراجی سے ان کی وزارت عظمی کے زمانے میں جب ایمرجنسی نافذ تھی اور بعض جگہ بعض اقلیتوں کے ساتھ بڑی زیادتیاں ہوئی تھی،میں نے کہا کہ اندراجی! اس سے زیادہ شرم کی کوئی بات نہیں کہ لوگ انگریزوں کے دور کو جو غلامی کا دور تھا یاد کرنے لگے ہیں،مجھے یہ یقین ہے کہ ہماری جنگ آزادی کے رہنماؤں کو اس بات کا کسی وقت اندازہ ہوتا یا کوئی تصور بھی ذہن میں آتا کہ ملک کے آزاد ہونے کے بعد ایک ایسا وقت بھی آسکتا ہے کہ ملک کے ذمہ داروں کی تنگ نظری اور غلط کاری کی بنا پر انگریزوں کی حکومت کا دور یاد آنے لگے گا اور وہ اس کی تمنا کرنے لگیں گے تو آپ یقین مانیے کہ ان کے عزم و ہمت اور جوش و خروش میں جو ملک کو آزاد کرانے کے لئے ظاہر ہورہا تھا، کمی ہوجاتی،ان کے دل اور قوت عمل کو بڑا دھکا لگتا،ان کی تقریروں میں وہ زور،ان کی جدوجہد میں وہ جوش و خروش نہ رہتا اور یہ جنگ آزادی آسانی اور نیک نامی کے ساتھ ہرگز کامیاب نہ ہوتی اور اپنی منزل کو نہ پہونچتی جس پر پہنچی،ایک ایسا زمانہ جس میں آدمی اپنے بچوں کو دیکھ کر خوش نہ ہو،اپنے مدرسوں، کتابی ذخیروں کو دیکھ کر مطمئن نہ ہو،اپنی محنتوں کے حاصل اور اپنے جوہر و قابلیت کے نتیجے سے اس میں افتخار کیا اعتماد کا بھی جذبہ پیدا نہ ہو،انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنے مستقبل کی طرف سے مشکوک و متردد ہو،اس میں زندگی کا کیا خاک مزہ اور ایسے ملک میں کس معنی میں آدمی اپنے آپ کو آزاد شہری،ملک کی زندگی میں دخیل اور اس کی تعمیر و ترقی میں شریک اور سرگرم ہو،پوری انسانی تاریخ میں انسان کا ضمیر اس بات کو پکار پکار کر کہتا سنائی دیتا ہے کہ غلامی سے بڑھ کر عیب و ذلت اور شرم کی کوئی بات نہیں، خدانہ کرے کہ ایسی عدالت قائم ہو کہ مجھے گواہ پیش کرنے کی نوبت آئے لیکن سینکڑوں کو پیش کیا جا سکتا ہے،جو یہ کہتے تو نہیں ہوں گے لیکن سوچتے ضرور ہوں گے، گھر میں بیٹھ کر باتیں بھی کرتے ہوں گے،پھر کسی آزاد ملک میں جس نے ملک کی آبادی کے تمام عناصر،قوموں اورفرقوں کے تعاون،جدوجہد اور قربانیوں کے ذریعے آزادی حاصل کی ہو،اس کے قیادت اور رہنمائی میں وہ ملک آزاد ہوا ہو، اس کا کوئی جواب نہیں کہ کوئی ایک فرقہ یا قوم خواہ وہ کیسی ہی کھلی اکثریت اور بڑی تعداد میں ہو اور کیسا ہی سرمایہ دار اور با وسائل ہو وہ نہ صرف اپنی تہذیب و ثقافت اپنے عقائد اور دیو مالا کی تعلیم و تبلیغ اور اس کو اپنی نئی نسل کی طرف منتقل کرنے اور اپنی تہذیب و ثقافت اور اپنی زبان و رسم الخط کے نہ صرف رواج دینے اور قائم کرنے میں بلکہ پورے ملک پر اور نئی نسل پر اس کو جاری اور رائج کرنے میں آزاد ہو اور دوسرا فرقہ دوسرا مذہب رکھنے والے خواہ وہ اپنی تعداد میں کئی ملکوں کے اسی مذہب کے باشندوں سے زیادہ تعداد رکھتے ہوں،اپنے دین و مذہب کے مطابق تعلیم دینے اپنی زبان و رسم الخط کی ترویج و بقا اپنی تہذیب و ثقافت کے تسلسل کی کوشش میں آزاد نہ ہو روز بہ روز اس پر نئی نئی پابندی عائد کی جائیں اور رفتہ رفتہ وہ محسوس کرنے لگے کہ وہ چلنے،پھرنے، کھانے، کمانے میں تو آزاد ہے،لیکن لسانی،ثقافتی اور تعلیمی طور پر پابند اور غلام ہے،اہل علم و نظر جانتے ہیں کہ صرف رسم الخط کی تبدیلی سے ایک ملک کے پورے باشندوں کا اپنے قدیم علمی ورثہ پوری ثقافت سے رشتہ ٹوٹ جاتا ہے اور وہ اپنی ماضی سے منقطع ہو جاتے ہیں،اسی بنا پر ایک فلسفی مؤرخ نے لکھا ہے کہ اب کسی کتب خانہ اور علمی ذخیرے کو نظر آتش کرنے اور برباد کرنے کی ضرورت نہیں،رسم الخط کا بدلنا کافی ہے،اس طریقے سے اس ملک کا اپنے ماضی سے رابطہ بالکل ختم ہو جائے گا، ہم اس مضمون کو اور اس اظہار حقیقت کو کہ وہ آزادی ہی نہیں جس کا سایہ ملک کے ایک حصے پر پڑے اور دوسرا حصہ محروم رہے ایک فرقے کے حق میں آزادی کی بہار آئے اور اس کا باغ نئے برگ و بار لائے اور دوسری جگہ خزاں کا دور دورہ ہو ہم اسے آزادی بالکل نہیں سمجھتے”
حضرت مولانا مرحوم کا یہ اقتباس پھر سے پڑھئے،اس میں کتنا درد اور کتنی حقیقت بیانی ہے؟آج جبکہ ملک کا مسلمان یہاں خطرہ محسوس کررہاہے،نہ ہماری جان محفوظ ہے،نہ مال محفوظ ہے،نہ عزت وآبرو سلامت ہے،کہیں ہجومی تشدد کے ذریعے غریب مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا جاتاہے،کہیں انکے مساجد،مدارس اور دیگر مذہبی اداروں پر بلڈوزر چلادیا جاتاہے،عدالتوں سے انصاف کے نام پر فیصلے سنائے جارہے ہیں،مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں کھلم کھلا دخل اندازی کی جارہی ہے،مساجد میں اذان کےلئے لگائے اسپیکر پر پابندی لگائی جائے،کھانے پینے کی چیزیں اب حکومت طے کرنے لگے تو پھر سوچئے یہ کیسی آزادی ہے؟اور ایسے میں جشن آزادی منانے کا کیا مطلب ہوسکتاہے اور کیونکر اسطرح کا جش منایا جائے؟ گزشتہ 11 سال سے ملک جس غیر اعلانیہ ایمرجنسی کے دور سے گزر رہا ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے،2014 میں ملک کے 140 کروڑ شہریوں سے اچھے دنوں کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن آج سب کے برے دن آچکے ہیں،ملک کو 11 سالوں میں کتنی بری طریقے سے برباد کیا گیا ہے یہ تو حکومت کی تبدیلی کے بعد معلوم ہوگا،ایک جمہوری ملک میں جب بڑے سے بڑا عہدے دار بھی محفوظ نہیں ہے تو پھر چھوٹے لوگ اور عام لوگ کیسے محفوظ رہیں گے،خبروں کے مطابق سابق نائب صدراستعفی دینے کے بعد سے غائب ہیں کسی نے ان کو نہیں دیکھا اور نہ انکا کوئی بیان میڈیا میں آیا،صحت کی خرابی کی بنیاد پر انھوں نے گزشتہ ماہ 21 جولائی کو اچانک استعفی دیدیا تھا اسکے بعد سے وہ غائب ہیں،سابق الیکشن کمیشن راجیو کمار کے ملک سے فرار ہونے کی خبر بھی گشت کر رہی ہے یہ سب آزاد ملک میں ہورہا ہے،آزاد بھارت میں ہو رہا ہے،آج 15 اگست کے دن ہمارا ملک جشن یوم آزادی منارہاہے،آزادی کے 78 سال بعد بھی بھارت کے لوگوں کی شہریت اپنے ہی ملک میں مشکوک ہے،پیدا ہونے سے مرنے تک اپنی شہریت ثابت کرنے کے لئے کارڈ پر کارڈ بنوانے پڑتے ہیں، جگہ جگہ دھکے کھانے پڑتے ہیں،اس کے بعد بھی شہریت ثابت نہیں ہو پاتی،جمہوریت میں ووٹ شہریوں کا بہت بڑا حق ہوتا ہے وہ حق بھی کب چھین لیا جائے کچھ کہا نہیں جاسکتا، کیا اسی دن کے لئے آزادی کی لڑائی لڑی گئی تھی،بے مثال قربانیاں پیش کی گئی تھی؟اورلاکھوں مجاہدین آزادی نے ہنستے مسکراتے پھانسی کے پھندوں کو چوما تھا؟ آخر اسکا نتیجہ کیانکلا؟تقریبا ڈیرھ سو سال کی طویل جدو جہد اور قربانیوں کے نتیجے میں ملک آزاد ہوا لیکن صرف 75 سال میں حکمرانوں نے ملک کی حالت اتنی بری کردی کہ اب یہاں گھٹن محسوس ہونے لگا ہے،اتنی کم مدت میں لاکھوں جانوں کی قربانیوں کا اثر ختم ہوگیا اور ملک ایک بارپھر غلامی کی راہ پر ہے اور پھر سے اسے غلام بنانے کی سازش رچی جارہی ہے تو ایسے میں ہماری ذمہ داری کیا ہے؟آج بھی ملک میں 140 کروڑ شہریوں کا ہر طبقہ مصیبت میں ہے،نوجوان روزگار سے محروم ہیں کسانوں کے مسائل حل نہیں ہورہے ہیں انکو اپنے حق کے لئے پولیس کی گولیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے خواتین سے کیا گیا ریزر ویشن اور تحفظ کا وعدہ تار تار ہوتا رہا،پسماندہ طبقات سے کیا گیا وعدہ،درج فہرست اقوام و اقوام قوائل پسماندہ طبقات اور اقلیتوں پر وحشت ناک مظالم اب تک ملک میں ہو رہے ہیں،معاشی لحاظ سے ملک میں مہنگائی اپنے عروج پر ہے،بے روزگاری کا سیلاب چل رہا ہے،میک ان انڈیا کا نعرہ پوری طرح فلاپ ہو گیا ہے،عدم مساوات اپنے عروج پر ہے،حکومت کی بیرونی پالیسی جس میں تمام ملکوں کے ساتھ تعلقات قائم کر کے وشو گرو ہونے کا دعوی کیا جارہا تھا یہ ایک سراب ثابت ہوا،آر ایس ایس ملک کے ہر ستون اور ہر ادارے پر حملہ آور ہے،سرکاری اداروں کی خود اختیاری تباہ کی جا رہی ہے،اپوزیشن پارٹیوں کو نہ ایوان میں اور نہ سڑک پر آواز اٹھانے کی اجازت ہے پھر ملک میں یہ کیسی آزادی ہے 140 کروڑ نفوس پر مشتمل سماج کا ہر طبقہ مصائب میں گھرا ہوا ہے پریشان ہے،زبانوں پر تالے لگائے جارہے ہیں،سوشل میڈیا پر حکومت مخالف آواز اٹھانے پر پابندی ہے،میڈیا حکومت کی ہم نوائی میں مصروف ہے،عدالتیں انصاف کا معیار قائم کرنے میں ناکام ہیں،ہرشخص خاموشی میں اپنی عافیت محسوس کرتاہے کیا بھارت آزاد ہے؟ گزشتہ 11 سال سے ملک میں جھوٹ اور لوٹ کا کاروبار دھڑلے سے چلتا رہا لیکن کیا ہم پھر بھی آزاد ہیں؟ہندوستان آزاد ہے یا پھر سے اسے غلام بنانے کی کوشش جارہی ہے ذرا غورکیجئے، شاعر نے درست ہی کہا ہے کہ
جھیلنا ہوگی تمہیں خود اپنی بربادی کے بعد
جانے کس کس کی غلامی،ایک آزادی کے بعد
*(مضمون نگار،معروف صحافی اور کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)*