29.1 C
Delhi
اگست 17, 2025
Uncategorized

اجماع امت

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ
مولانا مفتی شکیل احمد منصور قاسمی (ولادت یکم نومبر1979ء) بن الحاج محمد منصور عالم، ساکن سیدپور، بیگو سرائے، حال مقیم سوری نام جنوبی امریکہ کو اللہ تعالیٰ نے دقت نظر، وسعت فکر، مضبوط تحقیقی صلاحیت اور نصوص پر گہری نظر عطا فرمائی ہے، ادبی ذوق بھی ہے اور شعری پرکھ  بھی، ان کے پاس ہر فن پر گفتگو کرنے کے لیے الفاظ کا قیمتی ذخیرہ ہے اور وہ ضرورت کے مطابق اس کا استعمال کرنے پر قادر ہیں۔
اجماع امت، حقیقت، حیثیت، فلسفہ، مراتب وتطبیقات انہیں مولانا مفتی شکیل منصور قاسمی کی قیمتی تالیف اور اس موضوع پر اردو میں گراں قدر اضافہ ہے، دوسو ستر صفحات پر مشتمل اس کتاب کا ناشر مرکز البحوث الاسلامی العالمی ہے، ملنے کے پتے چار درج ہیں، ہندوستان میں کتابستان ٹوڈے مارکیٹ، کچہری روڈ بیگو سرائے، الحسن ملٹی اسٹور کامپلکس  دیوبند، الکتابستان  پبلشرز انصاری روڈ دریا گنج نئی دہلی ۲ سے حاصل کرسکتے ہیں، امریکہ میں مرکز الدراسات  الاسلامیہ وانیکا  ، پارامریو ، سوری نام جنوبی امریکہ سے مل سکتی ہے، کتاب پر قیمت کا اندراج نہیں ہے، اس کا دوہی مطلب ہوسکتا ہے ایک یہ کہ بک سیلرس کو کھلی چھوٹ ہو کہ وہ جس قیمت پر چاہیں اسے فروخت کریں، دوسرے یہ کہ مفت میں مل جائے، دوسرا پہلو زیادہ غالب معلوم ہوتا ہے، کتاب کا انتساب والدین محترمین، مادر علمی دارالعلوم دیوبند، اساتذہ کرام، اکابر عظام، رفقاء کرام، علمی شخصیات اور مولانا عبد العلیم فاروقی کے نام ہے جو مؤلف کی کشادہ قلبی اور وسعت ظرفی کا مظہر ہے، اساتذہ کرام میں مولانا محمد صابر نظامی قاسمی بھی ہیں، اس لیے الگ سے ان کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
شروع کتاب میں تفصیلات، انتساب، فہرست مضامین کے علاوہ دعائیہ کلمات مولانا محمد صابر نظامی، تقریظات: مولانا مفتی محمد ابوالقاسم نعمانی، مولانا مفتی سید محمد عفان منصورپوری، مولانا محبوب فروغ احمد قاسمی، مولانا مفتی محمد صالح اور مولانا مفتی عتیق احمد قاسمی کے ہیں، کلمات تقدیم حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، کلمات دعائیہ حضرت مولانا سید محمد عاقلؒ کے کتاب میں شامل ہیں، مؤلف کتاب ایک نظر میں اور دیباچہ اس کے علاوہ ہے، جو کتاب کے پینتالیس صفحات تک پھیلا ہوا ہے، جن حضرات کی تحریروں کو اس میں شامل کیا گیا ہے، ان کے ناموں میں حفظ مراتب اور تقدیم وتاخیر کا خیال نہیں رکھا گیا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے جس  ترتیب سے تحریریں آتی گئیں، اسی ترتیب سے ان کا اندراج ہوتا چلا گیا۔
کتاب پانچ ابواب اور شخصیات کتاب پر مشتمل ہے، پہلے باب میں اجتہادات، دور نبوی میں اور اس کے بعد کے اجتہادات، انفرادی اور اجتماعی اجتہادات کے بنیادی ومرکزی فرق پر روشنی ڈالی گئی ہے، یہ باب مختصر نگاری اور ایجاز کی بہترین مثال ہے، اتنی طویل علمی اور تاریخی بحث کو صرف پندرہ صفحات میں سمیٹ دیا گیا ہے، دوسرا باب اجماع سے متعلق ہے جو اس کتاب کا اصل موضوع ہے، اس باب کا آغاز صفحہ نمبر 63 سے ہوا ہے، اس میں اجماع کی لغوی اور اصطلاحی تعریف کے ساتھ، اجماع کے اقسام، اس کے منعقد ہونے کی شرطیں، ائمہ اربعہ کے یہاں اجماع کی حجیت، ناقلین اجماع کے اقسام، فقہی اختلاف کے ذیل میں مذکور بعض اجماع کی حقیقت پر روشنی ڈالی گئی ہے، یہ سلسلہ صفحہ نمبر 124 تک پھیلا ہوا ہے، باب سوم میں نقل اجماع کے لیے مستعمل تعبیرات و اصطلاحات اور اس کے احکام کو موضوع گفتگو بنایا گیا ہے، اس باب کا اختتام صفحہ نمبر 140 پر ہوجاتاہے، چوتھے باب میں اجتماعی غور وفکر کے تاریخی ادوار و مراحل کو زیر بحث لایا گیا ہے، اس میں دور نبوی، خلفائے راشدین اور جدید دور میں اجتماعی اجتہاد کے کی کوششوں کا چند صفحات 148 سے 152 کے درمیان جائزہ پیش کیا گیا ہے، پانچویں باب میں عالم اسلام میں فقہ اکیڈمیوں کے قیام کی تحریکیں اور دنیا بھر کی فقہی اکیڈمی کا جائزہ اور ان کی خدمات کا تعارف پیش کرنے کے بعد فقہ اکیڈمیوں کی ضرورت وافادیت، اجتماعی غور وخوض کی ضرورت، فقہ اکیڈمیوں کے اجلاس، پاس کردہ تجاویز کی شرعی وقانونی حیثیت پر تفصیلی گفتگو کے بعد نتیجہ پیش کیا گیا ہے کہ فقہ اکیڈمی کے فیصلے اجماع کے قائم مقام نہیں ہیں، اسے زیادہ سے زیادہ اتفاق رائے کہا جاسکتا ہے، انہوں نے یہ لکھ کر کہ ”چوتھی صدی ہجری کے بعد سے باتفاق علماء اجتہاد کا زمانہ چوں کہ بند ہوچکا ہے“، اس لیے اب اجماع شرعی کا ہونا بھی ممکن نہیں رہا، یہاں پر مولانا کو یہ بھی بتانا چاہیے تھا کہ خود ان کا یہ جملہ اجماع کے دائرے میں آئے گا یانہیں، اس کا مطلب یہ ے کہ نئے مسائل کے سلسلے میں ہمارے پاس اب تین ہی چیزیں بطور حجیت رہ گئیں اور اب کسی مسئلہ پر اجماع ممکن نہیں ہے، یہ غور طلب بات اور مزید تحقیق کا متقاضی ہے، 174 صفحہ پر جاکر کتاب موضوع کے اعتبار سے ختم ہوجاتی ہے۔
تقریباً ایک سو صفحات میں ان اکابر علماء وفقہاء کا ذکر کیا گیا ہے، جن کا ذکر مختلف موقعوں سے اس کتاب میں آیا ہے، کتاب کے اس حصہ سے ہماری معلومات میں اضافہ ہوتا ہے، اسے آپ تفصیلی اشاریہ یا تعارفی کلمات کہہ سکتے ہیں، مفید مطلب ہونے کے باوجود یہ موضوع سے الگ کتاب کے صفحات میں اضافہ کا سبب ہے، کتاب کی اہمیت، افادیت، جامعیت کے سلسلے میں تمام تقریظ نگاروں کی رائے مثبت اور توصیفی ہیں، یقینا یہ اس موضوع پر بڑی اہم اور مفید کتاب ہے اور اس لائق ہے کہ فقہ وفتاویٰ سے دلچسپی رکھنے والے تمام لوگ اسے اپنے مطالعہ میں رکھیں، تاکہ مسائل کی تنقیح وتوضیح اور حکم لگانے میں اجماع امت سے استفادہ کرنا آسان ہو، میں مصنف کو اس اہم کتاب کی تالیف پر مبارکباد دیتا ہوں، اللہ تعالیٰ ان سے خوب خوب کام لیتا رہے۔

Related posts

www.journeynews.in

ڈاکٹر نوہیرا شیخ : سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور معاشی خدمات

www.journeynews.in

گریٹر نوئیڈا میں طلباء اور سیکورٹی گارڈ کے درمیان سگریٹ نوشی کو لے کر تصادم

www.journeynews.in