نئی دہلی (ریلیز / ابو حماد عزیز) حیدر آباد میں قائم چار مینار بینک آج سے لگ بھگ تیس سال قبل حیدر آباد میںمسلم عوام کا پسند رہنے والا ایک کارپوریٹ بینک ہوا کرتا تھا۔ جسے اس وقت کے حکومت و اقتدار میں رہنے والے لوگوں نے تہس نہس کرکے برباد کر دیا تھا۔ آخر کار کئی سالوں تک عوام کی گاڑھی کمائی کو بچانے کے لئے چار مینار بینک کے ڈائرکٹرس نے پوری جدو جہد کی اور آخر کار ایک دن یہ خبر آئی کہ چار مینار بینک کے مالک نے بند کمرے میں خود کو گولی مار لی۔ جب کہ دوسری جانب لوگوں نے یہ بھی اندازہ لگایا کہ چار مینار بورڈ آف ڈائرکٹرس کے ہمت اور اولیٰ العزمی یہ بتاتی ہے کہ چار مینار بینک کے مالک خود کشی نہیں کرسکتے انہیں مارا گیا ہے اور خود کشی کا رنگ دے کر لاکھوں حیدر آبادی مسلمانوں کے پیسوں پر آنا فانا قبضہ کر لیا گیا۔ ٹھیک اسی طرح کا معاملہ ہیرا گروپ آف کمپنیز کے خلاف چلایا جارہا ہے۔ دن رات ذہنی اذیت دے کر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار صحافی مطیع الرحمن عزیز نے اپنے ایک تبصرہ میں کیا ہے۔
ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مطیع الرحمن عزیز جنہوں نے ہیرا گروپ آف کمپنی اور اس کی سی ای او عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ پر ایک کتاب ”جذبہ ¿ شاہین “ لکھی ہے، اور ہزاروں کی تعداد میں ملک کی لائبریریوں اور نامورشخصیات کے درمیان یہ کتاب مقبول ہوئی ہے، کہا کہ اگر اندازہ لگایا جائے تو حیدر آباد کے چار مینار بینک اور ہیرا گروپ آف کمپنیز کے معاملے میں یکسانیت دکھائی دیتی ہے۔ جیسا کہ ایک بینک کو مد مقابل پا کر نئے بینک کو زمینی سطح پر متعارف کرانے کے لئے سود خور کنبہ نے چار مینار بینک کے خلاف سازش رچی اور اس کی بربادی کا سبب بنتے ہوئے لاکھوں مسلم کنبہ کی گاڑھی کمائی کو برباد کیاگیا۔ ٹھیک اسی طرح ہیرا گروپ آف کمپنیز کے خلاف حیدر آباد کے سخت گیر و متشدد ممبر پارلیمنٹ اسد اویسی نے نہ صرف بغاوت کی تحریک چھیڑی بلکہ کئی سالوں تک ہیرا گروپ آف کمپنیز کے اہلکاروں کو حیدر آباد کی سرزمین چھوڑ کر صدر دفتر ملک کے کسی دوسرے شہر منتقل ہو جانے کی دھمکی دیتے رہے۔ آخر کار تھک ہار کر اسد اویسی نے 2012میں ہیرا گروپ آف کمپنیز کے خلاف شک کی بنیاد پر ایف آئی آر کرایا ۔ حکومت اور اقتدار کے نشہ میں ہیرا گروپ اور اس کے اہلکاروں کو چار سال یعنی 2016 تک سخت جانچ پڑتال کا سامنا رہا ، آخر کار خود ایف آئی آر کنندہ اسد اویسی اپنے ہی دائر کئے ہوئے ایف آئی آر پر اپنے شہر میں ذلت آمیز شکست سے دو چار ہوئے۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر اسد اویسی کو یہ سب کرنے کی ضرورت کیوں پڑی۔ ان کو کیا دقت ہو سکتی ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ سود سے پاک تجارت کا علمبردار بن کر ملک میں ابھرنے والی ہیرا گروپ آف کمپنیز کے میدان میں آ جانے سے وہ پیسے جو بینکوں میں عوام نے کافی مدتوں سے رکھا ہوا تھا نکال کر کمپنی میں سرمایہ کاری کرنے لگے۔ جس کے سبب اویسی کا سودی بینک خسارے میں پہنچ گیا۔ اس خسارے سے بچنے کیلئے اسد اویسی نے جہاں دھمکی آمیز رویوں سے ہیرا گروپ کے اہلکاروں کو ڈرانا دھمکانا چاہا، جب بات نہ بنی تو عدالت کا سہارا لیا اور شکست فاش سے دو چار ہوئے۔ 2018میں ایک بار پر پھر ہیرا گروپ کو چار مینار بینک کی طرح آزمائش میں ڈالاگیا ۔ کمپنی سی ای او کو آنا فانا جیل بھیجا گیا اور ہر وہ سخت اذیت دینے کی کوشش کی گئی جو مخالفین سے ہو سکتی تھی۔ ہیرا گروپ کے خلاف ان مقامات پر ہی مستعدی دیکھی گئی جہاں اسد اویسی کے رسوخ بہتر تھے۔ جیسے ممبئی ، پونے ، اورنگ آباد ، حیدر آباد اور مالیگاﺅں وغیرہ۔ اورنگ آباد سے ممبر پارلیمنٹ امتیاز جلیل نے تو حد ہی کردی کہ انہوں نے جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے پارلیمنٹ میں بیان دے کر یہ ثابت کردیا کہ ہیرا گروپ آف کمپنیز کو برباد کرنے کی کوشش کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔
اس خبر کو تحریر کرنے کے پیچھے مقصد یہ ہے کہ آج ملک کے کسی اردو اخبار میں یہ شائع کیا گیا ہے کہ ہیرا گروپ کی تشہیر کے پیچھے علما کی حمایت تھی۔ جب کہ یہ سراسر جھوٹ ہے اور تکذیب کی بات ہے۔ کیونکہ ہیرا گروپ کے منسلک زیادہ تر افراد دین دار طبقہ ہیں جو کہ سود سے پاک تجارت سے منسلک ہوکر لگ بھگ بیس سالوں تک استفادہ کرتے ر ہے۔ اور سازشیوں کے ہاتھوں روکے گئے ہیرا گروپ معاملے پر وہی دیندار اور علما طبقہ زیادہ متاثر ہیں جو کہ سود کے حدود کو سمجھتے اور عیوب و ہلاکت خیزی کو پہچانتے ہیں۔ کل ملا کر ہیرا گروپ آف کمپنیز کے ترقی کی رفتار میں ملک کے سودی بینکوں کو زیادہ نقصانات کا سامنا تھا اور حیدر آباد میں بارہ برانچ کھولے ہوئے دارالسلام بینک کو وہ نقصان تھا جو وہ حیدرآبادی خواتین کے زیوروں سے کروڑوں روپئے سود کی شکل میں حاصل کرتے تھے۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر اسد اویسی کو یہ سب کرنے کی ضرورت کیوں پڑی۔ ان کو کیا دقت ہو سکتی ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ سود سے پاک تجارت کا علمبردار بن کر ملک میں ابھرنے والی ہیرا گروپ آف کمپنیز کے میدان میں آ جانے سے وہ پیسے جو بینکوں میں عوام نے کافی مدتوں سے رکھا ہوا تھا نکال کر کمپنی میں سرمایہ کاری کرنے لگے۔ جس کے سبب اویسی کا سودی بینک خسارے میں پہنچ گیا۔ اس خسارے سے بچنے کیلئے اسد اویسی نے جہاں دھمکی آمیز رویوں سے ہیرا گروپ کے اہلکاروں کو ڈرانا دھمکانا چاہا، جب بات نہ بنی تو عدالت کا سہارا لیا اور شکست فاش سے دو چار ہوئے۔ 2018میں ایک بار پر پھر ہیرا گروپ کو چار مینار بینک کی طرح آزمائش میں ڈالاگیا ۔ کمپنی سی ای او کو آنا فانا جیل بھیجا گیا اور ہر وہ سخت اذیت دینے کی کوشش کی گئی جو مخالفین سے ہو سکتی تھی۔ ہیرا گروپ کے خلاف ان مقامات پر ہی مستعدی دیکھی گئی جہاں اسد اویسی کے رسوخ بہتر تھے۔ جیسے ممبئی ، پونے ، اورنگ آباد ، حیدر آباد اور مالیگاﺅں وغیرہ۔ اورنگ آباد سے ممبر پارلیمنٹ امتیاز جلیل نے تو حد ہی کردی کہ انہوں نے جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے پارلیمنٹ میں بیان دے کر یہ ثابت کردیا کہ ہیرا گروپ آف کمپنیز کو برباد کرنے کی کوشش کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔
اس خبر کو تحریر کرنے کے پیچھے مقصد یہ ہے کہ آج ملک کے کسی اردو اخبار میں یہ شائع کیا گیا ہے کہ ہیرا گروپ کی تشہیر کے پیچھے علما کی حمایت تھی۔ جب کہ یہ سراسر جھوٹ ہے اور تکذیب کی بات ہے۔ کیونکہ ہیرا گروپ کے منسلک زیادہ تر افراد دین دار طبقہ ہیں جو کہ سود سے پاک تجارت سے منسلک ہوکر لگ بھگ بیس سالوں تک استفادہ کرتے ر ہے۔ اور سازشیوں کے ہاتھوں روکے گئے ہیرا گروپ معاملے پر وہی دیندار اور علما طبقہ زیادہ متاثر ہیں جو کہ سود کے حدود کو سمجھتے اور عیوب و ہلاکت خیزی کو پہچانتے ہیں۔ کل ملا کر ہیرا گروپ آف کمپنیز کے ترقی کی رفتار میں ملک کے سودی بینکوں کو زیادہ نقصانات کا سامنا تھا اور حیدر آباد میں بارہ برانچ کھولے ہوئے دارالسلام بینک کو وہ نقصان تھا جو وہ حیدرآبادی خواتین کے زیوروں سے کروڑوں روپئے سود کی شکل میں حاصل کرتے تھے۔