19.1 C
Delhi
فروری 15, 2025
Delhi

دستور اور جمہوریت کو بچانے میں مسلمانوں کا کلیدی کردار آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت (رجسٹرڈ)

نئی دہلی:  مسلمانان ہند کی  نمائندہ تنظیم آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت (رجسٹرڈ)کی جنرل باڈی کا اجلاس گزشتہ  اتوار کو یہاں نیوہورائزن اسکول، حضرت نظام الدین نئی دہلی میں منعقد ہوا جس میں ملک بھر سے مشاورت کے سرکردہ ممبران اور عہدیداران شریک ہوئے۔ اس اجلاس کے دوران ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں کواتفاق رائے سے دوسال کے لیے مشاورت کا صدر منتخب کیا گیااور انھیںیہ اختیار دیا گیا کہ وہ باہمی مشورے سے مشاورت کے دستور  میں مناسب تیار کرائیں  جسے اگلی جنرل باڈی کے اجلاس میں منظورکرایا جائے گا۔

اس اجلاس کے دوران اہم ملی امور پر غوروخوض ہوا اورجوقراردادیں پاس کی گئیں، ان میں کہا گیا ہے کہ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کی جنرل باڈی گزشتہ عام انتخابات کے نتائج پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے رائے دہندگان کو مبارکباد دیتی ہے جنھوں نے نفرت کی سیاست کو مسترد کردیا ہے۔ ان نتائج سے واضح ہوگیا ہے کہ ملک میں اب بھی سیکولر لوگوں کی اکثریت ہے اور دستور کی برتری قایم ہے۔انتخابات کے دوران ملک میں دستور اور جمہوریت کوبچانے میں مسلمانوں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے،لہذا سیکولر جماعتیں مسلمانوں کے مسائل کے بارے میں واضح موقف اختیار کریں۔قرارداد میں کہا گیا ہے کہ نفرت پھیلانے والوں کو تمام کوششوں کے باوجود صرف چالیس فیصد ووٹ ملے ہیں اور ساٹھ فیصد رائے دہندگان نے نفرت کی سیاست کو مسترد کردیا ہے۔

آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت (رجسٹرڈ)اس موقع پر سیکولر سیاسی جماعتوں سے اپیلکی کہ وہ اپنے چھوٹے چھوٹے اختلافات کو چھوڑکر ملک و قوم کے وسیع مفادات کے لئے اپنا اتحاد قایم رکھیں اور ملک کو دوبارہ حقیقی جمہوریت کی طرف واپس لائیں۔ایک دیگر قرارداد میں کہا گیا ہے کہ مشاورت مسلمانوں کو قومی دھارے سے الگ کرنے کے ایجنڈے کی سخت مذمت کرتی ہے اور مسلمانوں کو مشورہ دیتی ہے کہ وہ ملک وملت کے مفاد میں نفرت کی سیاست کو کامیاب نہ ہونے دیں۔

مشاورت گز شتہ دس سال کے دوران مسلمانوں کو سیاسی طورپر صفر بنانے کی اور انھیں حاشیہ پر رکھنے کی کوششوں کی مذمت کرتی ہے۔ گؤکشی، لوجہاد،تبدیلی مذہب وغیرہ جیسے فرضی مسائل کھڑا کرکے ان کی ماب لنچنگ ہوئی ہے،جسے مسلمانوں نے صبر وتحمل سے برداشت کیا ہے اور انتقامی کارروائی سے گریزکیا تاکہ انتظامی مشینری کو مسلمانوں پر مزید ظلم کرنے کا موقع نہ ملے۔ لیکن اتنا کافی نہیں ہے، مسلمان اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے، قرآن سے تعلق جوڑنے کے ساتھ ساتھ وہ تمام وسائل اپنائیں جو قوموں کی مادی ترقی کے لیے ضروری ہیں، جن میں تعلیمی ترقی اور تجارت سرفہرست ہیں۔آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے مسلمانوں پر زور دیا ہے کہ وہ بڑھتے ہوئے ظلم وستم کو روکنے کے لیے قانونی راستے اپنائیں اور انصاف کے حصول تک قانونی جدوجہد اور مظلومین کے خاندانوں کی کفالت پرتوجہ مرکوز رکھیں۔

جنرل باڈی کے اجلاس میں غزہ میں جاری اسرائیلی نسل کشی  کی مذمت کے ساتھ ساتھ اس معاملے میں مسلم ملکوں کی مجرمانہ خاموشی کی بھی مذمت کی گئی ہے۔مشاورت نے ملک کے انصاف پسند عوام سے بھی اپیل کی ہے اس نسل کشی اور فلسطین پر سالہاسال سے جاری اسرائیلی قبضے کی مذمت کریں، ان کے خلاف بولیں اور احتجاج کریں۔ قرار داد میں کہا گیاکہ مشرق وسطیٰ کے بحران کا خاتمہ اسی وقت ممکن ہے جب فلسطینیوں کو اپنے ملک میں آزادی اور سیاسی خودمختاری سے رہنے کا موقع ملے گا۔حکومت ہند سے کہا گیا ہے کہ وہ غزہ میں نسل کشی رکوانے کے لیے اپنے اختیارات کا استعمال کرے۔ اس معاملے میں اقوام متحدہ کےمختلف اداروں کے کردار کی بھی تعریف کی گئی ہے۔میٹنگ کے اہم شرکاء میں سابق ممبر راجیہ سبھا محمدادیب،عبدالخالق (سابق ایم پی آسام)، خواجہ محمدشاہد، ڈاکٹر بصیراحمد خاں،عبدالعزیز(کلکتہ)،محترمہ عظمیٰ ناہید (ممبئی)،ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں، مفتی عطاء الرحمن قاسمی،پروفیسر محمدسلیمان (کانپور)،کمال فاروقی، محمدوزیرانصاری (آئی پی ایس ریٹائرڈ)،ڈاکٹر سید مہرالحسن (بھوپال)،قاضی زین الساجدین (شہر قاضی میرٹھ)، پروفیسرعرشی خان(علی گڑھ)،ڈاکٹر کوثرعثمان ، ایڈوکیٹ ندیم صدیقی(لکھنؤ)،حسیب احمد (سابق ممبر سیکریٹری این سی ٹی ای)، عبدالباطن کھاندیکر (ایم ایل اے آسام)، شبیہ احمد،  محمد ندیم صدیقی، ابرار احمد مکی، شاہد شریف شیخ، اخلاق حسین چشتی، حافظ منظور علی خان، محمد اقبال الظفر،  سعودالحسن ندوی(غازیپور)،ایڈوکیٹ سکندرحیات خاں،محمدجمیل الرحمن (ممبراسمبلیمالیرکوٹلہ)،معصوم مرادآبادی، سید تحسین احمد، محمد شمس الضحیٰ،ڈاکٹر سید احمد خاں،فیروز خاں غازی ایڈوکیٹ، سہیل انجم اور ڈاکٹر جاوید احمد کے نام قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے ممبران زوم سے بھی اس میٹنگ سے جڑے۔

 

 

 

آل انڈیا  مسلم مجلس مشاورت (رجسٹرڈ) جنرل باڈی میٹنگ

بمقام نیو ہورائزن اسکول، حضرت نظام الدین ، نئی دہلی ۔۹ ؍ جون ۲۰۲۴

قرار دادیں

۱۔ جنرل الیکشن: آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت (رجسٹرڈ) کی یہ جنرل باڈی میٹنگ پچھلے عام انتخابات کے نتائج پر اطمئنان کا اظہار کرتی ہے۔ نتائج سے واضح ہو گیا ہے کہ نفرت اور مسلم مخالف پالیسی نا کام ہو چکی ہے اور ملک میں اب بھی سیکولر لوگوں کی اکثریت ہے جو سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ نفرت پھیلانے والی پارٹی کو پارلیمنٹ میں اکثریت نہیں ملی ہے اور اسے  صرف ۴۰ فیصد ووٹ ملے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ ۶۰ فیصد ووٹ دہندگان نفرت کی سیاست کی تایید نہیں کرتے ہیں۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت (رجسٹرڈ) سیکولر پارٹیوں سے درخواست کرتی ہے کہ چھوٹے چھوٹے، ذٓتی، مقامی اور ذات پات کے اختلافات کو چھوڑ کر ملک اور قوم کے وسیع تر مفاد میں قریب آئیں اور ملک کو آئین اور سیکولرزم کی پٹری پر دو بارہ بھر پور طریقے سے واپس لائیں۔

۲۔ نفرت کی سیاست: نفرت کی سیاست اگرچہ سو سال سے اس ملک میں چل رہی ہے لیکن اسے پچھلے دس سالوں سے بہت بڑھاوا ملا ہے۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت اس نفرت کی سیاست اور مسلمانوں کو قومی دھارے سے الگ کرنے کے ایجنڈے کی سخت مذمت کرتی ہے اور مسلمانوں کو مشورہ دیتی ہے ہے کہ  وہ قوم و ملک و ملت کے مفاد میں نفرت کی سیاست کو نا کام بنائیں اور اپنے عمل اور قول سے اس کو کامیاب نہ ہونے دیں۔

۳۔ مسلمان کیاکریں:آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کو اس حقیقت کا گہرائی سے ادراک ہے کہ پچھلے سالوں میں، خصوصا ۲۰۱۴ کے بعد سے مسلمانوں کو حاشیہ پر رکھنے اور سیاسی طور پر صفر بنانے کی کوششوں میں بڑی تیزی آئی ہے۔ گائے کے گوشت، لو جہاد، کنورژن وغیرہ کے جعلی اور جھوٹے مسائل کو اٹھاکر مسلمانوں کو حاشیہ پر کھڑا کرنے اور ان کی ماب لنچنگ کی کافی کوشش ہوئی ہے۔ اس کو ملت نے صبر کے ساتھ برداشت کیا ہے اور انتقامی کار روائیوں سے گریز کیا ہے تاکہ پولیس وغیرہ کو مسلمانوں پر ظلم کرنے کا مزید موقعہ نہ مل سکے ۔ لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ مسلمانوں کو اللہ پاک کے دین کی رسی مضبوطی سے تھامنے، قرآن پاک سے تعلق جوڑنے کے ساتھ ساتھ وہ تمام وسائل اپنانے چاہئیں جو قوموں کی مادی ترقی کے لئے ضروری ہیں اور اس میں سر فہرت تعلیم میں ترقی  اور تجارت میں  اچھی حصہ داری ہے۔ یہ راستہ اپنا کر ملت اتنی مضبوط ہو جائے گی کہ اغیار اس پر ہاتھ ڈالنے سے پہلے کئی بار سوچیں گے۔ اسی کے ساتھ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت ملت کو یہ بھی یاد دلاتی ہے کہ بڑھتے ہوئے ظلم و ستم کو روکنے کے لئے قانونی راستے اپنائے، بالخصوص زیادتیوں کے خلاف عدالتوں میں اچھی چارہ جوئی کی جائے اور انصاف ملنے تک مقدمات لڑے جائیں نیز مظلومین کے خاندانوں کی کفالت کی جائے۔

۴۔ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی، وزی خارجہ امیر عبداللھیان اور متعدد دوسرے ذمے دار ۲۰ مئی ۲۰۲۴ کو ایک ہیلی کاپٹر کےافسوسناک  حادثے میں شہید ہوگئے۔ مشاورت اس غم میں شریک ہے اور ایران کے عوام اور ذمے دارروں کو تعزیت پیش کرتی ہے۔

۵۔ غزہ: فلسطینی مقبوضہ علاقہ غزہ پٹی پر ۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ سے اسرائیلی حملے ہو رہے ہیں جس کے نتیجے میں ہزاروں قتل  زخمی اور اپاہج ہونے والے معصوم مرد و عورت اور بچوں اور پورے علاقے میں عمارتوں اور انفراسٹرکچر کی تباہی کی مثال پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں بھی نہیں ملتی ہے۔ جنوبی افریقہ نے اس نسل کشی کے خلاف دو بار عالمی عدالت میں شکایت کی  ہےاور دونوں بار اسرائیل کو سرزنش ہوئی لیکن امریکہ کی اندھی تایید کی وجہ سے اسرائیل اب بھی غزہ کے لوگوں کے قتل عام اور بچی کچی عمارتوں کو تہ دبالا کرنے  میں مشغول ہے۔ اقوام متحدہ کے تمام ادارے دوسری  بے شمار بین الاقوامی تنظیمیں اس نسل کشی کی مذمت کر چکے ہیں لیکن جہاں بھی اسرائیل کی گردن  پھنستی ہے  وہاں امریکہاپنی سیاسی طاقت اور    ویٹو استعمال کرکے اس کو بچا لیتا ہے۔ دنیا اور بالخصوص جنوبی امریکہ کے متعدد ممالک  جارح اسرائیل سے سفارتی تعلق توڑ چکے ہیں یا اپنے سفیر واپس بلا چکے  ہیں۔ متعدد یوروپی ممالک نے فلسطین کو بطور ایک ملک اور حکومت تسلیم کر لیا ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ مسلم اور بالخصوص عرب ممالک کی طرف سے کافی سرد مہری کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے بلکہ خبروں کے مطابق بعض ملک در پردہ اسرائیل کی اس نسل کشی کی تایید کر رہے ہیں۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت اس نسل کشی کی بھر پور مذمت کرتی ہے اور ملک کے انصاف پسند لوگوں سے اپیل کرتی ہے کہ اس نسل کشی اور سالہا سال سے جاری فلسطین پر اسرائیلی قبضے کی مذمت کریں، اس کے خلاف بولیں اور مظاہرے کریں۔ شرق اوسط کے بحران کا خاتمہ اسی وقت ہوگا جب فلسطینیوں کو اپنے ملک میں آزادی اور سیاسی خود مختاری سے رہنے کا موقعہ ملے گا۔

 

صدارتی تقریر

محترم رفقاء  کرام

السلام علیکم

میں آپ سب کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ آپ کے یہاں جمع ہونے کا ایک ہی معنی اور مقصد ہے اور وہ ہے آپ کا عزم کہ امت کی اہم تنظیم آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کو دو بارہ اپنے پاؤوں پر کھڑا کیا جائے۔ ۲۰۱۶ کے بعد آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت بہت مسائل سے گھری رہی۔ نئے ذمے دار نے سخت غرور اور آمرانہ رویہ اپناتے ہوئے ایسے اقدامات شروع کئے کہ بہت سے ممبران مایوس ہوکر گھر بیٹھ گئے۔ سابق صدر مشاورت مرحوم سید شہاب الدین نے بالکل شروع ہی میں مجلس عاملہ سے استعفی دیتے ہوئے وہ سب بات کہی جو بعد میں سب کے سامنے حقیقت کے طور پر عیاں ہو گئی۔ سید شہاب الدین نے حالات کو بدلنے کی بہت کوشش کی لیکن آمرانہ ہتھکنڈوں کے سامنے کامیاب نہیں ہو سکے۔

آپ کے علم میں ضرور ہوگا کہ کس طرح پچھلے چند سالوں میں ملت کی نمائندہ تنظیم مسلم مجلس مشاورت پر ملت کے تئیں غیر سنجیدہ لوگوں نے قبضہ کر لیا۔ تقریبا ۷۰ ؍پرانے ممبران کو باہر کا راستہ دکھا دیا ، لا تعداد مجہول لوگوں کو مشاورت کا ممبر بنا کر اس پر قبضے کی سازش رچی ، من مانی طور پر غیر دستوری طریقے سے مشاورت پر ایک نیا دستور تھوپ دیا اور من مانے طریقے سے نئے انتخابات کراکر مجہول لوگوں کو مشاورت کا ذمے دار بنا دیاجس کی وجہ سے ملک و ملت میں مشاورت کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔ بہت ہی اہم مسائل پر بھی اس مشاورت نے خاموشی کو ترجیح دی۔ اس صورت حال سے ملت کے سنجیدہ لوگوں کو بہت تکلیف  تھی۔ وہ آپس میں اور مجھ سے بار بار کچھ کرنے کےلئے کہتے تھے کیونکہ اب ملت کی کوئی نمائندہ تنظیم نہیں رہ گئی تھی۔ اس لئے مجبوراً مجھے اس ذمے داری کو بالآخر قبول کرنا پڑا کہ مشاورت کو دہ بارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جائے اور اس کو ایک نمائندہ ملی تنظیم کے طور پر زندہ کیا جائے۔  میں نے یہ کہہ کر ذمے داری لی کہ چونکہ رجسٹریشن کاغذات میں میرا نام بحیثیت صدر لکھا ہے، میں یہ ذمے داری تنظیم کو زندہ کرنے اور الیکشن کرانے تک نبھاؤں گا لیکن میں اگلا صدر نہیں بنوں گا۔ میں اب بھی اپنی اس رائے پر قائم ہوں۔

آپ میں سے اکثر معزز ممبران اس سےپہلے اسی ہال میں  ۱۳؍نومبر ۲۰۲۲کو ایک غیر معمولی میٹنگ میں شریک ہوچکے  ہیں۔ اس کا مقصد بھی مشاورت کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا تھا لیکن کچھ وجوہات کی وجہ سے وہ کام پایۂ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔ اس کے بعد مشاورت (نوید حامد گروپ) میں الیکش بھی ہوا۔ کچھ اشارے تھے کہ الیکشن کے بعد  نئی ٹیم   اختلافی مسائل کو حل کرے گی جس میں سر فہرست بے شمار اہم اور قدیم ممبران کا غیر قانونی اخراج، غیر جمہوری طور سے نئے دستور کا نفاذ اور بہت سے ایسے لوگوں کو مشاورت  ممبر بنانا شامل تھا جو بادیٔ النظر اس کے اہل نہیں تھے۔ لیکن  نئی ٹیم کے آنے کے  ۱۴ مہینے گزرنے کے بعد بھی ایسے کوئی آثار نہیں کہ یہ مسائل حل ہوسکیں گے۔

اس سلسلے میں ہماری خوش قسمتی تھی کہ ”آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت“ ہمارے نام سے رجسٹرار آف سوسائیٹیز نئی دہلی میں رجسٹرڈ ہے۔ مولانا سالم قاسمی صاحب  مرحوم نے اس رجسٹریشن کو میرے نام منتقل کر دیا تھا۔ دوسرے لفظوں میں صرف ہماری تنظیم سرکاری اور قانونی طور سے معتبر ہے جبکہ دوسری تنظیم  غیر رجسڑڈ ہے جس کی وجہ سے اس کی  کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ یہ رجسٹریشن در حقیقت مولانا سالم قاسمی صاحب مرحوم کے زمانے میں ۲۰۰۳ میں عمل میں آیا تھا اور اس کا رجسٹریشن نمبر S/46913 ہے۔ اس بات کی ہم نے  کئی  بار رجسٹرار آف سوسائیٹیز دہلی کے آفس سے تحقیق کر لی ہے اور وہاں موجود فائل کے سارے کاغذات کی مصدقہ کاپی بھی حاصل کرلی ہے۔

آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت (رجسٹرڈ) کی گورننگ باڈی کے کل نو ( ۹) ممبران (ڈاکٹر ظفر الاسلام خان (صدر)، جناب محمد جعفر (نائب صدر)،  جناب منظور احمد آئی پی ایس (ریٹائرڈ) ( نائب صدر)،  جناب حافظ رشید احمد چودھری(نائب صدر )،  جناب احمد رشید شیروانی ( سکریٹری جنرل)،  پروفیسر محمدسلیمان ( جنرل سکریٹری)، جناب مفتی عطاء الرحمن قاسمی ( جنرل سکریٹری )،  ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس (جنرل سکریٹری ) اور  جناب معصوم مرادابادی (جنرل سکریٹری )  سب بحمد اللہ با حیات  ہیں اور  اس فیصلے کی تایید کرتے ہیں (صرف جناب رشید احمد شیروانی صاحب نے ابتک کوئی مثبت یا منفی جواب نہیں دیا ہے جبکہ جناب محمد جعفر صاحب نے پہلے ہی استعفی دینے کی وجہ سے شرکت سے انکار کیا ہے)۔  دوسرے تمام سات ممبران ہمارے ساتھ اس کوشش میں شریک ہیں۔

ان ممبران کی پچھلے چند  مہینوں میں  دو غیر رسمی اور دو رسمی میٹنگیں ہو چکی ہیں اور مشاورت کو زندہ کرنے کے لئے انھوں نے بہت سے فیصلے کئے ہیں جن میں گورننگ باڈی کی دستور کے مطابق توسیع  کی گئی اور ۹ جون ۲۰۲۴ بروز اتوار کودہلیمیں مشاورت کی جنرل باڈی کی میٹنگ منعقد کرنا  شامل ہے۔ ان فیصلوں کو آج آپ کے سامنے توثیق کے لئے پیش کیا گیا ہے۔

دستور مشاورت (رجسٹرڈ) کے مادہ ۱۲ (اے) کے مطابق گورننگ باڈی کی ممبرشپ ۲۱ ممبران تک پر مشتمل ہو سکتی  ہے۔ لہذا  ممبران گورننگ باڈی میٹنگوں میں   بنیادی نو (۹) ممبران کے علاوہ آٹھ (۸)مزید ممبران کو گورننگ باڈی  کا ممبر نامزد کرنے کا فیصلہ کیا جس کی تفصیل کارکردگی کے ضمن میں آئے گی۔

جنرل باڈی کی اس میٹنگ میں  اصلی مشاورت کا احیاء، مستقبل کے لئے اہم فیصلوں کے علاوہ اگلی میقات کے لئے الیکشن کرانا بھی شامل ہے۔ مشاورت (رجسٹرڈ) کے دستور کے مطابق جنرل باڈی کے انعقاد کے دوران ہی الیکشن ہوگا اور کسی منصب کے لئے ایک سے زیادہ مجوزہ ناموں کے آنے کی کی صورت میں  وہیں پر ہاتھ اٹھا کر یا خفیہ  بیلٹ سے انتخاب عمل میں آئے گا۔  گورننگ باڈی کے ممبران کی اکثریت کی رائے ہے کہ الیکشن کو خفیہ ہی رکھنا چاہئے۔ لہذا اگر کسی پوسٹ کے لئے صرف کافی لوگوں نے ایک ہی  نامزدگی  کی ہے تو وہ منتخب قرار پائے گا۔ دوسروں کے لئے خفیہ ووٹنگ ہوگی۔

گورننگ باڈی نے مشاورت (رجسٹرڈ) میں سنہ   ۲۰۱۶ کے اواخر تک کے تمام ممبران کو رکھا گیا ہے نیز وہ تمام ممبران جن کا پچھلے دنوں غیر قانونی طور سے اخراج ہوا ہے ان سب کو بھی ممبران کی لسٹ میں شامل کیا گیا ہے۔ نیز کچھ نئے ممتاز افراد اور تنظیموں کی بھی نشاندہی کی گئی ہے تاکہ ان کو مشاورت (رجسٹرڈ)  کی ممبرشپ کے لئے دعوت دی جائے۔  اس دوران ان افراد اور تنظیموںیں سے جس نے بھی آمادگی ظاہر  کی ان کوممبر بنالیا گیا ہے۔  آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

ہماری خواہش اور درخواست ہے کہ مشاورت کو کل ہند نمائندہ کی حیثیت دینے کے لئے آپ سب معزز ممبران بذات خود دوسرے اہم افراد ملت کو  مشاورت سے جڑنے کے لئے  آمادہ کریں  اور اگر آپ کسی فعال  ملی تنظیم سے وابستہ ہیں تو اس کو بھی مشاورت کی ممبر شپ کے لئے متوجہ  کریں۔

ملت کے سامنے اس وقت بہت گمبھیر مسائل ہیں اور صحیح رہنمائی  اور قیادت کے لئے کوئی ملی پلیٹ فارم نہیں ہے۔ اس بات کا خدشہ ہے کہ اگلے چند سالوں میں مسائل اور بھی بھیانک شکل اختیار کریں گے۔ ان سے نبرد آزما ہونے کے لئے ملت میں اتحاد اور ملت کی ایک مضبوط اور معتبر آواز کا ہونا از حدضروری ہے۔ ۱۹۶۴ میں مشاورت کے قائم ہونےکایہی مقصد تھا اور اب ۲۰۲۴ میں اس کو دو بارہ زندہ کرنے کے پیچھے بھی یہی مقصد ہے۔

اسی دوران   جناب ملک معتصم صاحب نائب امیر جماعت اسلامی ہند کا ۳۱؍ مئی  ۲۰۲۴  کو میرے پاس فون آیا  کہ مشاورت (نوید حامد) کے صدر فیروز انصاری،  مولانا اصغر امام مہدی سلفی امیر جمعیت اہل حدیث اور  جناب منصور آغا صاحب آئے  تھے یہ کہنے کے لئے کہ ہم لوگ سارے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں اور تیار ہیں۔ اس لئے آپ دوسرے گروپ سے ہماری ملاقات کرا دیں۔ اس لئے امیر جماعت ہمارے گروپ کے کچھ لوگوں سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ میں آ جاؤں گا، نیز مفتی عطاء الرحمن  قاسمی صاحب اور ڈاکٹر بصیر احمد خان کو بلا لیجئے کیونکہ وہ پاس میں ہی رہتے ہیں۔ مفتی صاحب نے علالت کی وجہ سے معذرت کی۔ یوں میں اور ڈاکٹر بصیر احمد خان صاحب اگلے دن صبح امیر جماعت  اسلامی جناب سعادت اللہ حسینی صاحب سے ملے۔ ان کی طرف سے جناب ملک معتصم صاحب اور  جناب سلیم انجینئر صاحب موجود تھے۔ امیر جماعت نے بتایا کہ مشاورت (نوید حامد) کے لوگ مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں اور دستوری ترمیمات کرانے اور نکالے گئے لوگوں کو واپس لینے کے لئے تیار ہیں لیکن ایک ملاقات چاہتے ہیں۔میں کہا کہ فیروز صاحب کو صدر بنے ہوئے ۱۴؍مہینےہوگئے ہیں لیکنابتک انھیں خیالنہیںآیا اور اب جب ہمارے گروپ کی میٹنگ ۹؍جونکوہونےوالیہےتو وہ ملاقات کی بات کر رہے ہیں۔ انھیں کرنا ہوتا تو ان چودہ مہینوںمیںسبکچھ کر چکے ہوتے۔ اور اگر اب بھی کرنا چاہتے ہیں تو کریں، کون ان کو منع کر رہا ہے، وہاں سب لوگ ان کے ہمخیال ہیں۔ پھر بھی امیر جماعت اور بالخصوص سلیم انجینئر صاحب کا اصرار تھا کہ ملاقات ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ منظورشیخ کی دستخط سے چند روز قبل جاری  ہونےوالے خط  کے بارے  میں بھی بات ہوئی تو امیر جماعت نے کہا کہ وہ بہت غیر مناسب خط  تھا ، اس وقت اس کو جاری کرنے سے بہت غلط پیغام جاتا  ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشاورت (نوید گروپ) سے بھی انہوں نے کل  یہی بات کہی تھی  جس پر فیروز انصاری صاحب نے کہا کہ  وہ خط  ان کی  مرضی سے جاری نہیں ہوا ہے۔

میںنے گورننگ باڈی کے رفقاء سے  اسی دن وھاٹسپ پیغام کے ذریعے   اس سلسلے میں مشورہ مانگا۔  جواب دینے والوں کی اکثریت عظمی   نے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا۔ ان کی رائے تھی  کہ اس قسم کے افہام و تفہیم کا وقت نکل چکا ہے۔ اگر انکو واقعی یہ کرنا تھا تو بہت پہلے کرچکے ہوتے۔ گورننگ باڈی کی اکثریت کی رائے یہ بھی  تھی کہ افہام وتفہیم ہماری ۹؍ جون ۲۰۲۴ کی میٹنگ کے بعد بھی ہوسکتی ہے اور مفاہمت کا راستہ ہمیشہ کھلا رہے گا لیکن انھیں خطوط پر جن کی نشاندہی خود  جناب ملک معتصم خان صاحب دو سال قبل کرچکے ہیں۔ اس لئے فی الحال اس قسم کی کسی مفاہمتی میٹنگ کے لئے ہماری معذرت قبول کریں۔

آخر میں میں آپ سب لوگوں کا استقبال کرتاہوں اور اللہ پاک سے دعا کرتا ہوں کہ یہ مجلس کامیاب ہو اور آنے والے دنوں میں آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت (رجسٹرڈ) کے ذمے داران اور ممبران وہ سب کام کریں  جنکی ملت کو اس اس عظیم تاریخ کی حامل تنظیم سے توقع ہے۔ آمین۔ میں اسی پر اپنی بات ختم کرتا ہوں اور اللہ پاک سے دعا کرتا ہوں کہ اس میٹنگ میں برکت دیں اور ہمارے مقصد کو ملک وملت کے لئے کامیاب کریں۔ آمین۔

 

 

Related posts

ریلائنس جیو کا خالص منافع جون سہ ماہی میں 12.1 فیصد بڑھ کر 4,863 کروڑ روپے ہو گیا

www.journeynews.in

عالمی یوم ماحولیات پرساون کرپال روحانی مشن نے 7500 پودے تقسیم کیے

www.journeynews.in

سنبھل سانحہ : جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے شہیدوں کے اہل خانہ کے لیے پانچ پانچ لاکھ روپے کا اعلان by Awam Express Newsنومبر 28, 202400

www.journeynews.in