نئی دہلی ( رپورٹ: مطیع الرحمن عزیز) جب ہم چھوٹے تھے تو ہماری والدہ دیگر بہن بھائیوں اور پڑوس کے ہونہار بچوں کا مثال دیتے ہوئے کہتی تھیں کہ دیکھو فلاں بچہ وقت پر اسکول کے لئے جاتا ہے اور فلاں بچہ بلا ناغہ سبق سنا کر نیا سبق حاصل کرتا ہے، اسی طرح تم بھی وقت پر جاگو، اسکول جاﺅ اور محنت کر کے اچھے نمبرات حاصل کرو۔ آج جب بھاگ دوڑ کی زندگی شروع ہوئی تو ہم پر شفقت کرنے والے بزرگوار علماءکو حکومتیں اور فسطائی طاقتیں اپنی سازشوں کا شکار بنا رہی ہیں، ایسے میں میرا یہی کہنا ہے کہ ہندوستان کے علماءکو پریشان اور لاچار محسوس کرنے کی ضرورت نہیں ہے، مثل کہا جاتا ہے کہ بھارت دیش ہر سو سالوں پر عظیم قربانی طلب کرتا ہے، ممکن ہے کہ آنے والے دن انہی سو سالوں کی قربانیوں کا تقاضا کرتے ہوں، ملک میں علماءمجاہدین آزدی نے اپنی جدوجہد اور قربانیوں سے مادر وطن بھارت کے گلشن کو سرسبز وشاداب بنایا تھا، آج اسی وقت کا آغاز ہو چکا ہے۔ مظلوم و معصوم علماءحق کی ناحق گرفتاری میں ہمیں قانون کے سہارے جیت حاصل کرنا ہوگا، اور سبق سیکھنا ہے کہ آنے والے دنوں میں اس کا سدباب کیسے کیا جائے ورنہ خاموش مزاجی ہمیں جینے نہیں دے گی، اس ملک میں جینا ہے تو کچھ اسباب پیدا کرنے ہوں گے۔
علماءکے صدمہ کو حوصلے کا رخ دینے کیلئے میں عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ کے آزمائشی اورمصیبت بھرے ایام سے قارئین کو روشناس کرانا چاہتا ہوں جو ہم تک یا تو نہیں پہنچے یا غلط رخ دے کر پہنچائے گئے۔ آج ہمارے جید عالم دین شیخ مولانا شبیر مدنی صاحب کی ناحق گرفتاری عمل میں آئی ہے، شیخ مدنی صاحب کا کیا قصور تھا؟ یہی نا کہ وہ کمزور باشندوں کے بچوں کو تعلیم دے کر مضبوط کرنے کیلئے جدوجہد کر رہے تھے، جہالت کی تاریکی میں علم کی قندیل جلا رہے تھے، ٹھیک اسی طرح عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ بھی علم کے میدان میں خدمت انجام دے رہی تھیں، میڈیکل کالج ، انجینئرنگ کالج، فائیو اسٹار رینک جامعہ اور ملک کے دیگر سیکڑوں مدرسوں اور اسکولوں کو تعاون، اس کے علاوہ روزگار اور روزی روٹی کے بندوبست کیلئے عظیم الشان تجارت، یہی سب قصور عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ کا تھا، جس کے سبب انہیں 825 دن قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں، آج بھی ہر وقت ناحق گرفتاری کی تلوار لٹکتی رہتی ہے، لیکن جذبے اور حق پر چلنے کا عظیم الشان حوصلہ کہ آج تک عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ ٹوٹی اور گھبرائی نہیںہیں، کلمہ حق کی سربلندی کیلئے کام جاری ہے۔
شیخ مولانا شبیر مدنی صاحب کی گرفتاری کی خبر ڈاکٹر نوہیرا شیخ تک پہنچ گئی ہے، مگر وہ بے بس درد سے صرف تڑپ ہی سکتی ہیں، ڈاکٹر نوہیرا شیخ کا مزاج خاموشی نہیں ہے، بلکہ علماءحق کی ذرہ برابر تکلیف میں اٹھ کھڑی ہونے والی اور سارے معاملات اپنے سر اٹھالینے والی شخصیت مجبور کردی گئی ہے، وہ خود کو بچائیں یا ہمارے بزرگ سرپرستوں کو جن کیلئے دعا کرنے کو کہا گیا کہ ”جب وہ بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اف تک نا کہو اور کہو کہ اے اللہ ان پر رحم فرما جیسے ہمارے بڑوں نے ہم پر بچپن میں شفقت کی“۔ شیخ معراج ربانی حفظہ اللہ تعالیٰ کے خلاف سازش ہوئی تو ڈاکٹر نوہیرا شیخ مضبوط دیوار بن کر کھڑی ہو گئیں اور انہیں ہر خاردار سے محفوظ کیا۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک پر اغیارنے سازش کا جال پھینکا تو پیغام پہنچایا کہ ڈاکٹر صاحب پریشان نہ ہوں، قانون کی مدد سے ہر آزمائش کا مقابلہ کریں، مولانا جرجیس سراجی صاحب کی گرفتاری کے دوران سپریم کورٹ وکیلوں کا ایک وفد جیل میں بھیجا اور پیغام پہنچایا کہ ہماری جس قدر ضرورت محسوس ہو حکم فرمائیں، دس لاکھ سے دس کروڑ تک کے قانونی اخرجات ہم برداشت کریں گے، کویت کی ریتیلی سرزمین پر بے یارو مددگار پانچ ہزار مزدوروں کو واپس وطن لانے کا بندوبست کیا، دوران قید، جیل میں اپنی سزائیں کاٹ چکی بے یار و مددگار خواتین کو قانونی مدد فراہم کرکے آزادی کی فضا میں سانس لینے کا موقع فراہم کرایا، دعوت حق اور تبلیغ کا کام قید وبند کی صعوبتوں کے درمیان بھی جاری رکھا اور اسی درمیان درجنوں تاریک دلوں کو توحید کے نور سے منور کیا۔
قارئین کرام ! ان سب باتوں کو تحریر کرنے کا میرا مقصد صرف یہ ہے، کہ علماءحق کسی بھی حالت میں گھبرایا نہیں کریں، اپنے ایمانی علم کے نور سے ہر جگہ روشنی بکھیرتے رہیں، ہمارے مجاہدین آزادی نے بھی سنت یوسف علیہ السلام سے دوچار ہونے پر صبر کا دامن تھامے رکھا اور ہر جگہ اپنی جدوجہد جاری رکھی،مولانا محمد علی جوہر ، مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا محمود حسن دیوبندی وغیرہم کی تاریخ ہمارے درمیان روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ موجودہ وقت میں عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ صنف نازک ہونے کے باوجود درجنوں سال سے اغیار کی سازشوں کا شکار ہیں، مگر ہمت حوصلہ اور جذبہ نہیں ہاریں۔ آج بھی ان کے خلاف چہار جانب سے دشمنوں کے ناپاک قافلوں کا نا ختم ہونے والا سلسلہ ہے، مگر عالمہ ڈاکٹر نوہیر اشیخ کا جذبہ کم نہیں ہوا۔ اور تعجب کی بات یہ کہ ان سب علماءحق کے خلاف سازشیں کرنے والوں میں اکثر نام نہاد کلمہ گو افراد ہی پیش پیش ہیں۔ ہمیں ہمت و حوصلہ نہیں ہارنا ہے، راستے تبدیل نہیں کرنا ہے، حق ایک دن واضح ہو کر تمام دنیا پر عیاں ہو جانے والا ہے۔ کوئی ایسی تاریک رات نہیں جس کی روشن صبح نا ہو۔ میری یہ تحریر علماءکے ٹوٹتے حوصلوں کے سپرد ہے، آزمائش اس وقت سیلابی کیفیت بن کر ہم پر وارد ہوتی ہے جب ہم آگے بڑھ رہے ہوتے ہیں، معمولی کاموں کو چیلنج کبھی نہیں ملتا، جب آپ کا کام باطل کے سرسے اوپر پہنچ جاتا ہے تو وہ سازش کر کے آپ کو ڈرانے، دھمکانے اور پیچھے دھکیلنے کی کوششیں کرتے ہیں۔