لکھنو، 8 نومبر/ نئی دہلی کے پنچکوئیاں روڈ پر واقع امامیہ ہال مسجد کے امام جمعہ والجماعت حجت الاسلام والمسلمین مولانا ممتاز علی صاحب کی مجلس سوئم میں ہزاروں مومنین و علمائے کرام نے شرکت کی جو محترم عالم دین کی تعلیمات کے گہرے اثرات کا ثبوت ہے، ملک کے اعلیٰ ذاکر مجلس، جس نے بڑے پیمانے پر ٹرن آؤٹ نے اس عالم کی پائیدار میراث کو اجاگر کیا۔ان کو ہزاروں مومنین نے خراج عقیدت پیش کیا، ان کی مجلس میں جہاں پورے ملک کے علماء نے آکر نمائندگی کی تو وہیں پر لکھنو سے شیعہ علمائے ہند کے جنرل سیکریٹری مولانا سید علی حسین قمی نے بھی اپنے تعزیتی بیان میں کہا کہ مرحوم و مغفور مولانا ممتاز علی کا نظریہ تھا کہ عالم حاکم ہوتاہے تو قوم کا نظریہ تھا کہ عالم نوکر ہوتا ہے جس سلسلہ میں انہونے دنیا بھر کی بڑی بڑی جماعتوں اور تنظیموں کے علاوہ بڑے سے بڑا عشرہ محرم چھوڑ کر وہ دہلی جیسی امامیہ ہال کی شیعہ جامع مسجد کے ایک ٹوٹے پھٹے مکان میں اپنی زندگی گزاری اور پینتیس سال تک قوم تک اپنی آواز بلند کرتے رہے۔ جس وجہ سے شیعہ قوم کے کچھ نام نہاد علماء جو بکری یا کسی کی بلی بھی مر جاتی ہے تو وہ ان کی تعزیت سیٹھ صاحب کو دیتے ہیں. جس سلسلہ میں مولانا راجانی کا مشرقی افریقہ کے شہر مومباسہ ایک صاحب سے جھگڑا ہوا جس کی بنیاد یہ تھی وہ صاحب کہہ رہے تھے کہ آپ کے لکھنو کے شیعہ عالم کا کیا کہنا کہ انہونے میرے گھر کی بلی مرنے پر تعزیت دی اور کتوں کی خیریت دریافت کی۔ جس کے بعد مولانا راجانی کا چند جگہوں پر داخلہ ممنوع ہوا تھا۔تو اب ایسے عالم اگر مولانا ممتاز علی صاحب مرحوم کی کسی مجلس میں شرکت نہ کریں تو کوئی تعجب نہیں کرنا چاہئے، مولانا قمی نے کہا کہ ابھی گزشتہ ہفتہ میں مرحوم و مغفور مولانا ممتاز علی صاحب سے ملا تھا تو وہ اپنی غربت کے علاوہ جس ٹوٹے پھوٹے مکان میں رہتے تھے ان کی وہ روداد سنا رہے تھے۔ آخر میں مولانا قمی نے کہا کہ قوم نے ایک صحیح رہبر کو چھوڑا ہے۔ بس خدا مرحوم کے درجات بلند کریں اور پسمانگان سے صبر جمیل عطا فرمائیں، آخر میں مولانا راجانی حسن علی نے بھی مرحوم و مغفور مولانا ممتاز علی صاحب کیلئے دعائے خیر کرتے ہوئے کہا کہ میں بھی ان شییعہ قوم کے جید علماء جو کسی سیٹھ صاحب کی بلی مرجاتی ہے تو وہ بلی کی تعزیت کے بعد کتوں کی خیریت دریافت کرتے ہیں ایسوں کی پرواہ نہیں کرتا ہوں